Sunday 14 December 2014

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
اک شرحِ حیات ہو گئی ہے
جب دل کی وفات ہو گئی ہے
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے
مدت سے خبر ملی نہ دل کی
شاید کوئی بات ہو گئی ہے
جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری
تصویرِ حیات ہو گئی ہے
دل میں تجھ سے تھی جو شکایت
اب غم کے نکات ہو گئی ہے
اقرارِ گناہ ہے عشق سن لو
مجھ سے اک بات ہو گئی ہے
جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی
تیری سوغات ہو گئی ہے
کیا جانئے موت پہلے کیا تھی
اب مری حیات ہو گئی ہے
گھٹتے گھٹتے تری عنایت
میری اوقات ہو گئی ہے
اس چشمِ سیہ کی یاد اکثر
شامِ ظلمات ہو گئی ہے
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہو گئی ہے
مٹنے لگیں زندگی کی قدریں
جب غم سے نجات ہو گئی ہے
وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے
جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے
پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی
اب برقِ صفات ہو گئی ہے
جس چیز کو چُھو لیا تُو نے
اک برگِ نبات ہو گئی ہے
اِکّا دُکّا صدائے زنجیر
زنداں میں رات ہو گئی ہے
ایک ایک صفت فراقؔ اس کی
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے

فراق گورکھپوری

No comments:

Post a Comment