عشق کرنا ہے تو ہجرت کیجے
ورنہ گھر بیٹھ کے وحشت کیجے
دشت آراستہ کیجے پہلے
اور پھر اس میں سکونت کیجے
دیکھیے جسم صحیفوں جیسے
یہ جو ہاتھوں سے تراشا ہے خدا
کم سے کم اس کی تو عزت کیجے
جاں سے جانا ہے تو پھر سوچیے مت
جلد سے جلد وصیت کیجے
شاعری کیجے کہ تسکین ملے
ورنہ اشکوں پہ قناعت کیجے
شہر کا شہر برہنہ ہے تو کیا
اپنی آنکھوں کی حفاظت کیجے
چھوڑئیے دَیر و حرم کی باتیں
کوئی اچھی سی نصیحت کیجے
اب تو ہو جائیے مسند افروز
اور اس دل پہ حکومت کیجے
جوڑیے سب سے تعلق لیکن
ٹوٹ کر خود سے محبت کیجے
کیجیے پہلے بغاوت عامیؔ
بعد میں اس کی وضاحت کیجے
عمران عامی
No comments:
Post a Comment