Friday 26 December 2014

کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے

کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے
ہم بھی اتنی زندگی کیسے وبالوں میں رہے
اک نظربندی کا عالم تھا نگر کی زندگی
قید میں رہتے تھے جب تک شہر والوں میں رہے
ہم اگر ہوتے تو ملتے تجھ سے بھی جانِ جہاں
خواب تھے ناپید دنیا کے ملالوں میں رہے
وہ چمکنا برق کا دشت و در و دیوار پر
سارے منظر ایک پل اس کے اجالوں میں رہے
کیا تھیں وہ باتیں جو کہنا چاہتے تھے وقتِ مرگ
آخری دم یار اپنے کن خیالوں میں رہے
دور تک مسکن تھے بن ان کی صداؤں کے منیرؔ
دیر تک ان دیویوں کے غم شوالوں میں رہے

منیر نیازی

No comments:

Post a Comment