Tuesday 16 December 2014

مہک رہے ہیں جو یہ پھول لب بہ لب مری جاں

مہک رہے ہیں جو یہ پھول لب بہ لب مِری جاں
جو تم نہیں ہو تو پھر کون ہے سبب مِری جاں
اداسیوں بھری شامیں جہاں سے آتی ہیں
وہیں سے آئی ہے یہ ساعتِ طرب مِری جاں
مِری کتابیں، مِری خوشبوئیں، مِری آنکھیں
تمہارے ہجر میں جاگے ہیں سب کے سب مِری جاں
تمہارے ساتھ، جو گزرے تمہاری یاد کے ساتھ
نہ ویسے دن کبھی گزرے، نہ ویسی شب مِری جاں
بہم ہوئے ہیں ذرا دیر کو تو خوش ہو لیں
کسے خبر کہ بچھڑ جائے کون، کب مِری جاں
کوئی دن اور کہ ہو جائیں گے فسانہ ہم
ہماری یاد ستائے گی تم کو تب مِری جاں
بہت دنوں میں کہی میں نے اس طرح کی غزل
وگرنہ دل کی یہ حالت ہوئی تھی کب مِری جاں

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment