کچھ کہوں، کچھ سنو، ذرا ٹھہرو
ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو
منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں
جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو
مت نکلنا، کہ ڈوب جاؤ گے
صورتِ حال اپنے باہر کی
ہے ابھی تک زبوں، ذرا ٹھہرو
میرا دروازہ توڑنے والو
میں کہیں چھپ رہوں، ذرا ٹھہرو
ہاتھ سے اپنے لکھ کے نام اپنا
میں تمہیں سونپ دوں، ذرا ٹھہرو
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment