Friday, 19 December 2014

کل فکر یہ تھی کشورِ اسرار کہاں ہے

کل فکر یہ تھی کشورِ اسرار کہاں ہے
اب ڈھونڈ رہا ہوں کہ درِ یار کہاں ہے
پھر حُسن کے بازار میں بِکنے کو چلا ہوں
اے جنسِ تدبر کے خریدار! کہاں ہے
پھر روگ لگایا ہے مرے دل کو کسی نے
اے چارہ گرِ خاطرِ بیمار! کہاں ہے
پھر بر سرِ تخریب ہے اک جلوۂ کافر
اے کعبۂ حکمت کے نگہ دار! کہاں ہے
ہنگامہ ہے پھر دل میں بپا سُود و زیاں کا
اے تجربۂ اندک و بسیار کہاں ہے
پھر عشق کے خورشید کی سر پر ہے کڑی دھوپ
اے عقل! ترا سایۂ دیوار کہاں ہے
پھر مائلِ دریوزہ ہے خود دارئ شاعر
اے جزر و مدِ غیرتِ فنکار کہاں ہے
پھر چرخِ تفکر پہ ہیں زلفوں کی گھٹائیں
اے فاتحِ اقلیمِ شبِ تار! کہاں ہے
پھر خواب کے گرداب میں غلطاں ہے دلِ زار
اے کشتئ اندیشۂ بیدار! کہاں ہے
راتوں کے اندھیروں میں ہے پھر اشک فشانی
اے روشنئ طبعِ گہربار! کہاں ہے
ادراک سے پھر عشق بغاوت پہ ہے تیار
اے فکر کی چلتی ہوئی تلوار! کہاں ہے
پائل کے کھنکنے میں ہے پھر دعوتِ زنجیر
اے بربطِ اطلاق کی جھنکار! کہاں ہ
پھر خون میں غلطیدہ ہے زیرِ لب و رخسار
اے قاطعِ زہرِ لب و رخسار! کہاں ہے
آوارہ ہے پھر دشت و بیاباں میں دلِ جوشؔ
اے تمکنتِ گوشۂ افکار! کہاں ہے

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment