Thursday 25 December 2014

کب کہا پیچ و خم نکال کے رکھ

کب کہا پیچ و خم نکال کے رکھ
پھر بھی گیسو ذرا سنبھال کے رکھ
لوگ پہچان ہی نہ لیں تجھ کو
ابھی چہرے پہ خاک ڈال کے رکھ
صرف اشکوں سے میں بہلتا نہیں
آنکھ سے خواب بھی نکال کے رکھ
یہ بھی نام و نسب سے ہوتے ہیں
سو پرندوں کو دیکھ بھال کے رکھ
کچھ مسافر پلٹ بھی سکتے ہیں
راستے میں دِئیے اجال کے رکھ
شوقِ گِریہ میں مت بہا آنسو
یہ خزانہ کہیں سنبھال کے رکھ
ہجرۂ دل میں کر قیام ابھی
درد سینے میں کوئی پال کے رکھ
خطِ تنسیخ کھینچ عامیؔ مت
ہجر سے رابطے وصال کے رکھ

عمران عامی

No comments:

Post a Comment