تیری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں
جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں
تیرے بغیر وہ دن بھی گزر گئے آخر
تیرے بغیر یہ دن بھی گزرتے جاتے ہیں
لے چلو مجھے دریائے شوق کی موجو
تمام عمر جہاں ہنستے کھیلتے گزری
اب اُس گلی میں بھی ہم ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
میں خواہشوں کے گھروندے بنائے جاتا ہوں
وہ محنتیں مِری برباد کرتے جاتے ہیں
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment