Thursday 25 December 2014

تیری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں

تیری نگاہ کے جادو بکھرتے جاتے ہیں
جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں
تیرے بغیر وہ دن بھی گزر گئے آخر
تیرے بغیر یہ دن بھی گزرتے جاتے ہیں
لے چلو مجھے دریائے شوق کی موجو
کہ ہمسفر تو مِرے پار اُترتے جاتے ہیں
تمام عمر جہاں ہنستے کھیلتے گزری
اب اُس گلی میں بھی ہم ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
میں خواہشوں کے گھروندے بنائے جاتا ہوں
وہ محنتیں مِری برباد کرتے جاتے ہیں

ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment