بارشوں میں اس سے جا کے ملنے کی حسرت کہاں
کوکنے دو کوئلوں کو اب مجھے فرصت کہاں
جی تو کہتا ہے کہ اس کو ساتھ ہی رکھیں مگر
اپنے پاس اس حُسنِ عیش انگیز کی قیمت کہاں
تلخ اس کو کر دیا اربابِ قریہ نے بہت
روک سکتے تھے اسے ہم ابتدا کے دور میں
اب ہمیں دیوانگئ شہر پر قدرت کہاں
دیکھتا ہوں ہر طرف شاید دُھائی دے کبھی
پر فراخِ دشت میں آدمؑ کی وہ سورت کہاں
ایک منزل یہ بھی تھی خوابوں کی ورنہ اے منیرؔ
میں کہاں اور اس دیارِ غیرکی غربت کہاں
منیر نیازی
No comments:
Post a Comment