Tuesday 30 December 2014

وہ میرے واسطے آئے یہ ہو نہیں سکتا

وہ میرے واسطے آئے، یہ ہو نہیں سکتا
وفا کا سر نہ جھکائے، یہ ہو نہیں سکتا
وہ خود بھی درد کا مارا ہے جانتا ہوں مگر
وہ دل کی بات بتائے، یہ ہو نہیں سکتا
کہیں کبھی کوئی وعدہ وفا نہ ہو جائے
اسے یہ غم نہ ستائے، یہ ہو نہیں سکتا
وہ جانتا ہے مرض بھی، دوا بھی، قیمت بھی
تو ہم پہ ظلم نہ ڈھائے، یہ ہو نہیں سکتا
جہاں یقین کو قسموں کی حاجتیں ہوں وہاں
نہ ہوں گمان کے سائے، یہ ہو نہیں سکتا
اے میرے دل! تو مرے ساتھ جھوٹ بولا کر
مجھے یقین نہ آئے، یہ ہو نہیں سکتا
بوقتِ وعدۂ وصل و وفا، ہمارے ساتھ
قسم وہ جھوٹی نہ کھائے، یہ ہو نہیں سکتا

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment