Thursday 25 December 2014

کوئی میرا امام تھا ہی نہیں

کوئی میرا امام تھا ہی نہیں
میں کسی کا غلام تھا ہی نہیں
تم کہاں سے خدا اٹھا لائے
اس کہانی میں رام تھا ہی نہیں
جس قدر شورِ آب و گل تھا یہاں
اس قدر اہتمام تھا ہی نہیں
ہم نے اس وقت بھی محبت کی
جب محبت کا نام تھا ہی نہیں
اس لیے سادھ لی تھی چپ میں نے
اس سے بہتر کلام تھا ہی نہیں
وقت نے لا کھڑا کیا اس جا
جو ہمارا مقام تھا ہی نہیں
تُو کہاں راستے میں آ گئی ہے
زندگی! تجھ سے کام تھا ہی نہیں
اڑ رہا ہوں کھلی فضاؤں میں
جیسے میں زیرِدام تھا ہی نہیں
اس لیے خاص کر دیا گیا عشق
عام لوگوں کا کام تھا ہی نہیں

عمران عامی

No comments:

Post a Comment