کبھی ہم شعر کہتے تھے
کبھی ہم شعر کہتے تھے
ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ لفظ بنتا تھا
کوئی آری سی چلتی تھی
جو دل کو چیر دیتی تھی
بہت ڈرتے تھے لفظوں کی دہکتی آگ سے
روتے تھے، مالک سے دعا کرتے تھے
مالک بس
ہمارا حوصلہ مت آزما
ہم ہار جائیں گے
سو پھر اس نے ہمیں دنیا کے اس بازار کا
حصہ بنا ڈالا
جہاں ہر شے کی قیمت ہے
یہاں ہم شاعری کو جنس میں تبدیل کرتے ہیں
بہت پیسے کماتے ہیں
ہماری رات شغلِ مے میں کٹتی ہے
ہمارا دن بہت سی سازشوں کے جال بُنتا ہے
ہماری جیب میں ہر وقت اِک فہرست رہتی ہے
کہاں کب کون سے دن شعر کی محفل بپا ہو گی
وہاں کے منتظم کو کیسے اپنے ہاتھ میں لینا ہے
اور پیسے کمانے ہیں
سبھی کچھ مل گیا ہے
ہاں مگر، اب شاعری ہوتی نہیں ہم سے
پرانے شعر پڑھ پڑھ کر سبھی سے داد لیتے ہیں
بہت ہم پر اترتا تھا کبھی رزقِ سخن اور اب خدائے پاک نے
ایسی سزا دی ہے
ہمارے رزق سے برکت اٹھا دی ہے
قمر رضا شہزادؔ
No comments:
Post a Comment