Tuesday 23 December 2014

کبھی ہم شعر کہتے تھے

کبھی ہم شعر کہتے تھے

کبھی ہم شعر کہتے تھے
ہمارے خون کا ایک ایک قطرہ لفظ بنتا تھا
کوئی آری سی چلتی تھی
جو دل کو چیر دیتی تھی
ہم اپنے جسم سے باہر نکل جاتے تھے خود سے خوف کھاتے تھے
بہت ڈرتے تھے لفظوں کی دہکتی آگ سے
روتے تھے، مالک سے دعا کرتے تھے
مالک بس
ہمارا حوصلہ مت آزما
ہم ہار جائیں گے
سو پھر اس نے ہمیں دنیا کے اس بازار کا
حصہ بنا ڈالا
جہاں ہر شے کی قیمت ہے
یہاں ہم شاعری کو جنس میں تبدیل کرتے ہیں
بہت پیسے کماتے ہیں
ہماری رات شغلِ مے میں کٹتی ہے
ہمارا دن بہت سی سازشوں کے جال بُنتا ہے 
ہماری جیب میں ہر وقت اِک فہرست رہتی ہے
کہاں کب کون سے دن شعر کی محفل بپا ہو گی
وہاں کے منتظم کو کیسے اپنے ہاتھ میں لینا ہے
اور پیسے کمانے ہیں
سبھی کچھ مل گیا ہے
ہاں مگر، اب شاعری ہوتی نہیں ہم سے
پرانے شعر پڑھ پڑھ کر سبھی سے داد لیتے ہیں
بہت ہم پر اترتا تھا کبھی رزقِ سخن اور اب خدائے پاک نے
ایسی سزا دی ہے
ہمارے رزق سے برکت اٹھا دی ہے

قمر رضا شہزادؔ

No comments:

Post a Comment