Friday 26 December 2014

پت جھڑ سے گلہ ہے نہ شکایت ہوا سے ہے

پت جھڑ سے گِلہ ہے، نہ شکایت ہوا سے ہے
پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے
سرشارئ شگفتگئ گُل کو ہے کیا خبر
منسُوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے
رکھا ہے آندھیوں نے ہی، ہم کو کشِیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نِسبت ہوا سے ہے
اس گھر میں تِیرگی کے سوا کیا رہے، جہاں
دل شمع پر ہیں، اور ارادت ہوا سے ہے
بس کوئی چیز ہے، کہ سُلگتی ہے دل کے پاس
یہ آگ وہ نہیں، جسے صحبت ہوا سے ہے
صرصر کو اذن ہو جو صبا کو نہیں ہے بار
کُنجِ قفس میں زیست کی صورت ہوا سے ہے
گُلچِیں کو ہی خرامِ صبا سے نہیں ہے خار
اب کے تو باغباں کو عداوت ہوا سے ہے
خوشبو ہی رنگ بھرتی ہے تصویرِ باغ میں
بزمِ خبرمیں، گُل کی سیادت ہوا سے ہے
دستِ شجر میں رکھے، کہ آ کربکھیر دے
آئینِ گُل میں خاص رِعایت ہوا سے ہے
اب کے بہار دیکھیے، کیا گُل کھلائے گی
دل دادگانِ رنگ کو، وحشت ہوا سے ہے​
پروین شاکر​

No comments:

Post a Comment