Sunday 14 December 2014

گزراں ہے گزرتے رہتے ہیں

گزراں ہے گزرتے رہتے ہیں
ہم میاں جان مرتے رہتے ہیں
ہائے جاناں وہ ناف پیالہ ترا
دل میں بس گھونٹ اترتے رہتے ہیں
دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
سارے جلسے بکھرتے رہتے ہیں
یعنی کیا کچھ بھلا دیا ہم نے
اب تو ہم خود سے ڈرتے رہتے ہیں
ہم سے کیا کیا خدا مُکرتا ہے
ہم خدا سے مُکرتے رہتے ہیں
ہے عجب اس کا حالِ ہجر کہ ہم
گاہے گاہے سنورتے رہتے ہی
دل کے سب زخم پیشہ ور ہیں میاں
آن ہا آن بھرتے رہتے ہیں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment