گزراں ہے گزرتے رہتے ہیں
ہم میاں جان مرتے رہتے ہیں
ہائے جاناں وہ ناف پیالہ ترا
دل میں بس گھونٹ اترتے رہتے ہیں
دل کا جلسہ بکھر گیا تو کیا
یعنی کیا کچھ بھلا دیا ہم نے
اب تو ہم خود سے ڈرتے رہتے ہیں
ہم سے کیا کیا خدا مُکرتا ہے
ہم خدا سے مُکرتے رہتے ہیں
ہے عجب اس کا حالِ ہجر کہ ہم
گاہے گاہے سنورتے رہتے ہی
دل کے سب زخم پیشہ ور ہیں میاں
آن ہا آن بھرتے رہتے ہیں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment