اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان! ہم کو وہاں بلا بھیجو
کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زُلف! یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو
نئی کلیاں جو اب کھِلی ہیں وہاں
ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو، نہ تم دوا بھیجو
دھول اڑتی ہے جو اس آنگن میں
اس کو بھیجو، صبا صبا بھیجو
اے فقیرو! گلی کے اس گُل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو
شفقِ! شامِ ہجر کے ہاتھوں
اپنی اُتری ہوئی قبا بھیجو
کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں، کوئی بد دُعا بھیجو
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment