Friday, 19 December 2014

حیرت ہے آہ صبح کو ساری فضا سنے

حیرت ہے، آہِ صبح کو ساری فضا سنے
لیکن زمیں پہ بت، نہ فلک پر خدا سنے
فریادِ عندلیب سے کانپے تمام باغ
لیکن نہ گل، نہ غنچہ، نہ بادِ صبا سنے
خود اپنی ہی صداؤں سے گونجے ہوئے ہیں کان
کوئی کسی کی بات سنے بھی تو کیا سنے
یہ بھی عجب طلسم ہے اے شورشِ حیات
درد آشنا کی بات، نہ درد آشنا سنے
شاہوں کے دل تو سنگ ہیں، شاہوں کا ذکر کیا
یہ بھی نہیں کہ حال گدا کا گدا سنے
عالم ہے یہ کہ گوشِ بشر تک ہے بے نیاز
ہونا تھا یہ کہ بندہ کہے، اور خدا سنے
سنتے بھی ہیں جو لوگ، تو یوں، داستانِ غم
جیسے یزید سانحۂ کربلا سنے
ہاں اے خدائے عرشِ برین و بُتانِ فرش
تم میں سے ہو کوئی تو مرا ماجرا سنے
پشمینہ پوش راہ نشینوں کی التجا
شاید کبھی وہ شاہدِ اطلس قبا سنے
ہم نادر و یزید، نہ حجاج ہیں، نہ شمر
اللہ، اور جوشؔ، ہماری دعا سنے

جوش ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment