Sunday 14 December 2014

حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے

حواس میں تو نہ تھے پھر بھی کیا نہ کر آئے
کہ دار پر گئے ہم، اور پھر اُتر آئے
عجیب حال کے مجنوں تھے جو بہ عشوہ و ناز
بہ سُوئے بادیہ محمل میں بیٹھ کر آئے
کبھی گئے تھے میاں! جو خبر کو صحرا کی
وہ آئے بھی تو بگولوں کے ساتھ گھر آئے
کوئی جنوں نہیں سودائیانِ صحرا کو
کہ جو عذاب بھی آئے وہ شہر پر آئے
بتاؤ دام گرو! چاہیے تمہیں اب کیا
پرندگانِ ہوا خاک پر اُتر آئے
عجب خلوص سے رُخصت کیا گیا ہم کو
خیالِ خام کا تاوان تھا، سو بھر آئے

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment