لفظ تو بانجھ ہیں
لفظ تو بانجھ ہیں جذبوں کی قدر کیا جانیں
زندگی ہار چکی ہو وہ نظرکیا جانیں
اپنے معصوم گلابوں سے حسیں بچوں کی
ایک کھوئی ہوئی مسکان پہ کچھ لکھنا ہے
ان کی بے جان نگاہوں پہ مجھے کہنا ہے
لفظ تو بانجھ ہیں قرطاس کے آئینے میں
لفظ جو زیست کا عنوان ہیں سرمایہ ہیں
پھر بھی جذبات کے عکاس نہیں ہو سکتے
خوف کے شہر میں احساس نہیں ہو سکتے
نوحۂ غم بھی تو احساس کی جولانی ہے
ہائے اے دل! کہ یہاں خوف کی ویرانی ہے
منتظر ماں جو کھڑی ہے، کہ بہت دیر ہوئی
میرے گھر بار کی رونق نہیں آیا اب تک
لفظ میں ڈھونڈ رہی ہوں کہ اسے کیسے کہوں
تیرا معصوم شہیدوں میں لکھا آیا
نام اپنا جو بہت پیار سے رکھا تُو نے
ٹوٹ کر دور کہیں جا کے کہ گرا ہے وہ شجر
جس کو دن رات محبت سے سنوارا تُو نے
لفظ تو بانجھ ہیں جذبات نہیں کہہ سکتے
وقت کے وار کو اس بار نہیں سہہ سکتے
لفظ تو بانجھ ہیں جذبوں کی قدر کیا جانیں
زندگی ہار چکی ہو وہ نظرکیا جانیں
اپنے معصوم گلابوں سے حسیں بچوں کی
ایک کھوئی ہوئی مسکان پہ کچھ لکھنا ہے
ان کی بے جان نگاہوں پہ مجھے کہنا ہے
لفظ تو بانجھ ہیں قرطاس کے آئینے میں
لفظ جو زیست کا عنوان ہیں سرمایہ ہیں
پھر بھی جذبات کے عکاس نہیں ہو سکتے
خوف کے شہر میں احساس نہیں ہو سکتے
نوحۂ غم بھی تو احساس کی جولانی ہے
ہائے اے دل! کہ یہاں خوف کی ویرانی ہے
منتظر ماں جو کھڑی ہے، کہ بہت دیر ہوئی
میرے گھر بار کی رونق نہیں آیا اب تک
لفظ میں ڈھونڈ رہی ہوں کہ اسے کیسے کہوں
تیرا معصوم شہیدوں میں لکھا آیا
نام اپنا جو بہت پیار سے رکھا تُو نے
ٹوٹ کر دور کہیں جا کے کہ گرا ہے وہ شجر
جس کو دن رات محبت سے سنوارا تُو نے
لفظ تو بانجھ ہیں جذبات نہیں کہہ سکتے
وقت کے وار کو اس بار نہیں سہہ سکتے
شائستہ مفتی
No comments:
Post a Comment