Thursday 18 December 2014

لفظ تو بانجھ ہیں

لفظ تو بانجھ ہیں

لفظ تو بانجھ ہیں جذبوں کی قدر کیا جانیں
زندگی ہار چکی ہو وہ نظرکیا جانیں
اپنے معصوم گلابوں سے حسیں بچوں کی
ایک کھوئی ہوئی مسکان پہ کچھ لکھنا ہے
ان کی بے جان نگاہوں پہ مجھے کہنا ہے
لفظ تو بانجھ ہیں قرطاس کے آئینے میں
لفظ جو زیست کا عنوان ہیں سرمایہ ہیں
پھر بھی جذبات  کے عکاس نہیں ہو سکتے
خوف کے شہر میں احساس نہیں ہو سکتے
نوحۂ غم بھی تو احساس کی جولانی ہے
ہائے اے دل! کہ یہاں خوف کی ویرانی ہے
منتظر ماں جو کھڑی ہے، کہ بہت دیر ہوئی
میرے گھر بار کی رونق نہیں آیا اب تک
لفظ میں ڈھونڈ رہی ہوں کہ اسے کیسے کہوں
تیرا معصوم شہیدوں میں لکھا آیا
نام اپنا جو بہت پیار سے رکھا تُو نے
ٹوٹ کر دور کہیں جا کے کہ گرا ہے وہ شجر
جس کو دن رات محبت سے سنوارا تُو نے
لفظ تو بانجھ ہیں جذبات نہیں کہہ سکتے
وقت کے وار کو اس بار نہیں سہہ سکتے

شائستہ مفتی

No comments:

Post a Comment