Thursday 18 December 2014

خدا کی نظروں سے گر گئے جو

خدا کی نظروں سے گر گئے جو

مِرے وطن
میری بے بس اداس دھرتی
مِرے پشاور کے نونہال آج
اپنی ماؤں کی گود کو چھوڑ
تیری گودی میں چھپ گئے ہیں
وہ ڈر گئے ہیں
بڑے ہی سفاّک بے رحم لوگ ہیں
جو خدا کی بستی میں 
ماؤں کے دل کچل رہے ہیں
وہ اپنے بُوٹوں سے 
کِھلتے پھولوں کی کیاریوں کو مسل رہے ہیں
بڑے ہی معصوم ننھے دل ہیں 
مگر دراڑیں
جو ان میں آئیں بہت بڑی ہیں
سوال بن کر 
قدم قدم راہ روکے ہوئے کھڑی ہیں
کہو! ہمارا قصور کیا تھا 
کہو! ہمارا قصور کیا تھا
سنو
تمہارے لیے یہاں اب 
کہیں بھی جائے پناہ نہیں ہے
نہ جن کو مٹی پناہ دے گی
نہ آ سماں ہی مدد کرے گا
کہ چھوٹے بچوں کو قتل کر کے
زمین اور آسماں کی نظروں سے گِر گئے ہو
یہ تم ہو، جو آج مر گئے ہو
تمہی ہو، جو آج مر گئے ہو

شہناز پروین سحر

No comments:

Post a Comment