ایک میں ہوں ایک میری رائیگانی رقص میں
تیسرا کوئی نہیں ہے یار جانی! رقص میں
وه تو یوں تھا جسم کی تقسیم آڑے آ گئی
ورنہ میرے ساتھ تھی میری جوانی رقص میں
دُور اِک درویش کے حُجرے کے بالکل سامنے
رات پھر اونچی حویلی میں بلا کا شور تھا
ڈھونڈتی پِھرتی تھی کس کو نَم کہانی رقص میں
یہ بوجہِ عشق ہے کہ پھر کرامت یار کی
پُھوٹ نکلا ایڑیوں سے آج پانی رقص میں
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment