Wednesday 31 December 2014

ایک میں ہوں ایک میری رائیگانی رقص میں

ایک میں ہوں ایک میری رائیگانی رقص میں
تیسرا کوئی نہیں ہے یار جانی! رقص میں
وه تو یوں تھا جسم کی تقسیم آڑے آ گئی
ورنہ میرے ساتھ تھی میری جوانی رقص میں
دُور اِک درویش کے حُجرے کے بالکل سامنے
آ کبھی دنیا دکھاؤں لا مکانی رقص میں
رات پھر اونچی حویلی میں بلا کا شور تھا
ڈھونڈتی پِھرتی تھی کس کو نَم کہانی رقص میں
یہ بوجہِ عشق ہے کہ پھر کرامت یار کی
پُھوٹ نکلا ایڑیوں سے آج پانی رقص میں

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment