Saturday, 27 December 2014

مرا اک مشورہ ہے التجا نئیں

مِرا اک مشورہ ہے التجا نئیں
تُو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں
کوئی دم چین پڑ جاتا مجھے بھی
مگر میں خود سے دم بھر کو جدا نئیں
سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں
محبت کچھ نہ تھی جز بد ہواسی
کہ وہ بندِ قبا ہم سے کھلا نئیں
یہاں معنی کا بےصورت صلہ نئیں
عجب کچھ میں نے سوچا ہے لکھا نیئں
چلائے تیر تو کس کس نے لیکن
میرا قاتل کوئی تیرے سوا نئیں
بچھڑ کر جان تیرے آستاں سے
لگایا جی بہت پر جی لگا نئیں
ہمارا ایک ہی تو مدعا تھا
ہمارا اور کوئی مدعا نیہں
کبھی خود سے مکر جانے میں کیا ہے
میں دستاویز پر لکھا ہوا نئیں
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پہ اس کے جانے کیا نئیں
وہ ہجر و وصل تھا سب خواب در خواب
وہ سارا ماجرا جو تھا وہ تھا نئیں
جدائی اپنی بے روداد سی تھی
کہ میں رویا نہ تھا اور پھر ہنسا نئیں
بڑا بے آسرا پن ہے سو چپ رہ
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ خدا نئیں

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment