رکھا ہوا ہے سینت کر اس خاک نے مجھے
ورنہ بہت پکارا تھا افلاک نے مجھے
ممکن ہے کا ئنات سے آگے دکھائی دے
روکا ہوا ہے دیدۂ نمناک نے مجھے
میں نخلِ برگ و بار تو تھا ہی نہیں کبھی
میں اپنے خال و خد میں ہوں ٹھہرا ہوا وہیں
چھوڑا تھا جس جگہ پہ تیرے چاک نے مجھے
یه جُرم کس کے کھاتے میں ڈالوں، مِرے خدا
مارا ہوا ہے قلّتِ خوراک نے مجھے
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment