Wednesday 31 December 2014

رکھا ہوا ہے سینت کر اس خاک نے مجھے

رکھا ہوا ہے سینت کر اس خاک نے مجھے
ورنہ بہت پکارا تھا افلاک نے مجھے
ممکن ہے کا ئنات سے آگے دکھائی دے
روکا ہوا ہے دیدۂ نمناک نے مجھے
میں نخلِ برگ و بار تو تھا ہی نہیں کبھی
رُسوا کِیا ہے کیوں خس و خاشاک نے مجھے
میں اپنے خال و خد میں ہوں ٹھہرا ہوا وہیں
چھوڑا تھا جس جگہ پہ تیرے چاک نے مجھے
یه جُرم کس کے کھاتے میں ڈالوں، مِرے خدا
مارا ہوا ہے قلّتِ خوراک نے مجھے

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment