کیا کہیں کشف و کرامات میں رکھا ہوا ہے
یا تیرا عشق مناجات میں رکھا ہوا ہے
مجتہد! عشق کی تفسیر جو ممکن ہی نہیں
کس لئے پھر اسے آیات میں رکھا ہوا ہے
عین ممکن تھا تِرے ہاتھ سے جاتا رہتا
کیا تماشا ہے کوئی عشق تھما کر صاحب
روز اِک ہِجر مِری گھات میں رکھا ہوا ہے
میں تو دریا کے سفر کے لئے موزوں بھی نہیں
تُو نے صحرا بھی مِرے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے
ایک ہی شخص ہے میرے لئے اول آخر
اور کیا ارض و سماوات میں رکھا ہوا ہے
ڈر سا رہتا ہے کہیں ٹوٹ نہ جائے میثمؔ
یہ جو اک حبس مِری ذات میں رکھا ہوا ہے
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment