Tuesday 30 December 2014

حسن کندن ہے ترا اور نکھر جائے گا

حُسن کُندن ہے تِرا اور نکھر جائے گا
جب جوانی کا حسیں دور گزر جائے گا
تُو مِرے دل سے دبے پاؤں نکل جائے تو کیا
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے کدھر جائے گا
نام لکھتا ہے مِرا اپنی ہتھیلی پہ، مگر
میں نے پوچھا تو کھڑے پاؤں مُکر جائے گا
قتل تو شہر کا سردار کرے گا، لیکن
اس کا الزام کسی اور کے سر جائے گا
وصل ہو گا کہ تُو ہو جائے گا شہ رَگ سے الگ
جب مِرا دِل تِری اُمید سے بھر جائے گا

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment