Saturday 13 December 2014

اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے

اب کے یوں بھی تیری زلفوں کی شکن ٹوٹی ہے
رنگ پھوٹے، کہیں‌ خوشبو کی رسن ٹوٹی ہے
موت آئی ہے کہ تسکین کی ساعت آئی
سانس ٹوٹی ہے کہ صدیوں کی تھکن ٹوٹی ہے
دل شکستہ تو کئی بار ہوئے تھے، لیکن
اب کے یوں ہے کہ ہر شاخِ بدن ٹوٹی ہے
ایک شعلہ کہ تہِ خیمۂ جاں لپکا تھا
ایک بجلی کہ سرِ صحنِ چمن ٹوٹی ہے
میرے یاروں کے تبسم کی کرن مقتل میں
نوکِ نیزہ کی طرح زیرِ کفن ٹوٹی ہے
ریزہ ریزہ میں بکھرتا گیا ہر سُو محسنؔ
شیشہ شیشہ میری سنگینئ فن ٹوٹی ہے​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment