Sunday 14 December 2014

اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو

اے میرے سارے لوگو

اب مِرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مِری سمت کہ جو
اس سے پہلے مِری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مِرے شہر میں بارُود کی بُو پھیلی ہے
پھر سے "تُو کون ہے میں کون ہوں" آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے
مِری بستی سے پرے بھی مِرے دشمن ہوں گے
پر کہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مِری جانب لپکے
مِرے سِینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئی عام وہی اہلِ رِیا کی باتیں
نعرۂ حُبِ وطن، مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح، دِینِ خدا کی باتیں
دِل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخ بازو کے لیے زلف کا بازو رویا
مثل پیراہن گُل، پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونِیم
نوکِ دشنہ سے کِھچی تھی مِری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں، ایسا نہیں ہونے دینا
اے میرے سوختہ جانو، میرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہو گی
مِرے دِلگیر، مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب، کسی ظالم، کسی قاتل کے لئے
خود کو تقسیم نہ کرنا، مِرے سارے لوگو


احمد فراز

No comments:

Post a Comment