Saturday 13 December 2014

مری سانسوں کی خوشبو سے تجھے زنجیر ہونا ہے

مری سانسوں کی خوشبو سے تجھے زنجیر ہونا ہے
ابھی اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونا ہے
یہ کہہ کر اپنی محرومی کو بہلاتا ہے دل اپنا
اگر وہ چاند ہے تو پھر اسے تسخیر ہونا ہے
مرے لفظوں کی لغزش کہہ رہی تھی آج محفل میں
کہ تیری خامشی کو حاصلِ تقریر ہونا ہے
جبیں تو خیر داغِ بندگی سے بجھ گئی لیکن
دعا کو بے نیازِ حلقۂ تاثیر ہونا ہے
وہ جن کے خون سے دستارِ قاتل ہو گئی رنگیں
انہی کے مقتلوں کی خاک کو اکسیر ہونا ہے
ہمارے گھر پہ گرتی بجلیوں کو کیا خبر محسنؔ
کہ اس ملبے پہ اک تازہ نگر تعمیر ہونا ہے​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment