مری سانسوں کی خوشبو سے تجھے زنجیر ہونا ہے
ابھی اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونا ہے
یہ کہہ کر اپنی محرومی کو بہلاتا ہے دل اپنا
اگر وہ چاند ہے تو پھر اسے تسخیر ہونا ہے
مرے لفظوں کی لغزش کہہ رہی تھی آج محفل میں
جبیں تو خیر داغِ بندگی سے بجھ گئی لیکن
دعا کو بے نیازِ حلقۂ تاثیر ہونا ہے
وہ جن کے خون سے دستارِ قاتل ہو گئی رنگیں
انہی کے مقتلوں کی خاک کو اکسیر ہونا ہے
ہمارے گھر پہ گرتی بجلیوں کو کیا خبر محسنؔ
کہ اس ملبے پہ اک تازہ نگر تعمیر ہونا ہے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment