Friday 19 December 2014

ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے میں نہیں گنتا

ہیں موسم رنگ کے کتنے گنوائے، میں نہیں گِنتا
ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئی، میں نہیں گِنتا
بھلا خود میں کب اپنا ہوں، سو پھر اپنا پرایا کیا
ہیں کتنے اپنے اور کتنے پرائے میں نہیں گِنتا
لبوں کے بیچ تھا ہر سانس اک گنتی بچھڑنے کی
مرے وہ لاکھ بوسے لے کے جائے میں نہیں گِنتا
وہ میری ذات کی بستی جو تھی میں اب وہاں کب ہوں
وہاں آباد تھے کِس کِس کے سائے، میں نہیں گِنتا
بھلا یہ غم میں بھولوں گا کہ غم بھی بھول جاتے ہیں
مرے لمحوں نے کتنے غم بھلائے، میں نہیں گِنتا
تُو جن یادوں کی خوشبو لے گئی تھی اے صبا! مجھ سے
انہیں تُو موج اندر موج لائے، میں نہیں گِنتا
وہ سارے رشتہ ہائے جاں کے تازہ تھے جو اس پل تک
تھے سب باشندۂ کہنہ سرائے، میں نہیں گِنتا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment