Saturday 27 December 2014

بارودی بھیجے بھیجوں میں بارود بھرا ہے

“بارودی ”بھیجے
٭
یہ جو تم
اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر
تھوڑی سی حق تلفی کو بنیاد بنا کر
گلشن گلشن، مکتب مکتب، خون بہا کر
بن آئی“ میں اپنی جان گنواتے ہو”
کس دل کی تسکین کا ساماں کرتے ہو
نام نہاد انسانو
یہ تم
گلشن گلشن اڑنے والی تتلی کے پر
نوچ رہے ہو
اپنے چمن کی
بربادی کا سوچ رہے ہو
مہکی مہکی خوشبوؤں میں
بارودوں کی بو بھرتے ہو
کیا کرتے ہو
پیار فضا کا، تازہ ہوا کا
نقش مٹانے کی سازش میں شامل ہو کر
قریہ قریہ ایک تعفن پھیلاتے ہو
خود نابود ہوئے جاتے ہو
٭
نکلو! اندھیاروں سے نکلو
اٹھو! ہست کا چولا پہنو
ابھرو! سورج بن کر ابھرو
دھرتی ماں کو اپنی کرنیں دان کرو
٭
لڑنا ہے تو
اس دشمن سے جنگ لڑو تم
جس نے تمہاری
کومل کومل کلیوں کو ناشاد کیا ہے
پکی پکائی
فصلوں کو بربا کیا ہے
آنے والی نسلوں کو برباد کیا ہے
٭
مارنا ہے تو اس مردود کو جا کر مارو
جس نے تمہارے
بھیجوں“ میں بارود بھرا ہے”

سعید دوشی

No comments:

Post a Comment