Sunday 14 December 2014

جس کو لینے تاجروں کا دستہ نکلا

جس کو لینے تاجروں کا دستہ نکلا
بِکنے آیا تو توقع سے بھی سستا نکلا
اپنے سینے میں چھپائے ہوئے تیری یادیں
ہم پہ ہر شخص آوازیں کستا نکلا
ہم نے ہر بات بہت سوچ سمجھ کر کی ہے
بس اِک لفظِ محبت تھا، جو برجستہ نکلا
وہ، جس نے پاؤں تلے کتنے دل مسل ڈالے
کل وہی شخص، محبت کو ترستا نکلا
تیری مُسکان سے منسوب رہی راحت میری
میرا ہر غم، تیرے غم سے پیوستہ نکلا 

احمد فراز

No comments:

Post a Comment