Friday 19 December 2014

ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا

ہوائے یار میں کیا دل کو اضطراب رہا
چکور چاند کی خاطر بہت خراب رہا
ہمیشہ کوششِ دنیا میں اضطراب رہا
بہت خراب دلِ خانماں خراب رہا
نہ برشگال میں جب تک شراب پلوا لی
بلا کی طرح سے سر پر مِرے سحاب رہا
ہم اپنے حال پہ روتے ہیں اب ضعیفی میں
خوشا، وہ عہد کہ طفلی رہی، شباب رہا
وہ بادہ نوش تھے پیری میں بھی نہ توبہ کی
شراب خُم میں رہی، شیشی میں خضاب رہا
ہر اک مقام پہ نشو و نما رہی دل کی
چمن میں پھول رہا، بحر میں حباب رہا
خط آ گیا، نہ رہا عشقِ مصحفِ رخِ یار
نہ وہ کتاب رہی اور نہ وہ حساب رہا
ہمیشہ قلزمِ ہستی میں صورتیں بدلیں
کبھی تو موج رہا اور کبھی حباب رہا
یہ وہ فلک ہے کہ جس کے سبب سے عالم میں
نہ ایک حال پہ دو روز ماہتاب رہا
خوشی وہ کون سی دی جس کے بعد غم نہ دیا
ہمیشہ سر پہ فلک بر سرِ حساب رہا
کمند لے کے وہیں موج ہو گئی موجود
جہاں ذرا سر اٹھائے ہوئے حباب رہا
برنگِ موجِ ہوا اے صباؔ ہوئے تھے خلق
رہے جہان میں جس دم تک اضطراب رہا

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment