Monday, 22 December 2014

ملحد تو یہ کہتا ہے، خدا کوئی نہیں ہے

ملحد تو یہ کہتا ہے، خدا کوئی نہیں ہے
صوفی کو گماں ہے، وہ سرِ عرشِ بریں ہے
میں نے بھی خدا کو نہیں دیکھا ہے قسم سے
مجھ کو تو فقط اپنے ہی ہونے کا یقیں ہے
بزمِ مہ و انجم میں کسے ڈھونڈ رہا ہوں
کیا شب کے ستاروں میں کوئی زہرہ جبیں ہے
پہنے ہوئے کون اترا قبا لالہ و گل کی
تتلی کا یہ کہنا ہے وہ پھولوں سے حسیں ہے
دیکھو تو مری سلطنتِ دل کا اثاثہ
اک صبر کی جاگیر ہے اور نانِ جویں ہے
بنجر میں اگاتی ہے یہ کیوں فصل لہو کی
جانے، مرے پاؤں تلے یہ کیسی زمیں ہے
اک کفر تھا درویشی، تو اک جرم محبت
مسعودؔ اسی جرم میں اب سِجن نشیں ہے

مسعود منور

No comments:

Post a Comment