Sunday, 14 December 2014

خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی

خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی
زندگی اک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کٹ گئی
جستجو میری بھی دشمن تھی، عدو اس کی بھی تھی
میری باتوں میں بھی تلخی تھی سمِ تنہائی کی
زہر شہنائی میں ڈوبی گفتگو اس کی بھی تھی
رات بھر آنکھوں میں اس کا مرمریں پیکر رہا
چاندنی کے جھلملانے میں نمو اس کی بھی تھی
گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی
کچھ مجھے بھی سیدھے سادھے رستوں سے بَیر ہے
کچھ بھٹک جانے کے باعث جستجو اس کی بھی تھی
وہ، جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب 
میں نے اس کو ہمسفر جانا، کہ تو اس کی بھی تھی
بات بڑھنے کو تو بڑھ جاتی بہت لیکن نظرؔ 
میں بھی کچھ کم گو تھا چپ رہنے کی خو اس کی بھی تھی 

ظہور نظر

No comments:

Post a Comment