خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی
زندگی اک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کٹ گئی
جستجو میری بھی دشمن تھی، عدو اس کی بھی تھی
میری باتوں میں بھی تلخی تھی سمِ تنہائی کی
رات بھر آنکھوں میں اس کا مرمریں پیکر رہا
چاندنی کے جھلملانے میں نمو اس کی بھی تھی
گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی
کچھ مجھے بھی سیدھے سادھے رستوں سے بَیر ہے
کچھ بھٹک جانے کے باعث جستجو اس کی بھی تھی
وہ، جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب
میں نے اس کو ہمسفر جانا، کہ تو اس کی بھی تھی
بات بڑھنے کو تو بڑھ جاتی بہت لیکن نظرؔ
میں بھی کچھ کم گو تھا چپ رہنے کی خو اس کی بھی تھی
ظہور نظر
No comments:
Post a Comment