Tuesday 23 December 2014

مری اونچ نیچ سے آشنا نہیں ہو سکی

مِری اونچ نیچ سے آشنا نہیں ہو سکی
وہ حسیں ڈگر مِرا راستہ نہیں ہو سکی
لب و حرف سے مِرا اعتبار ہی اٹھ گیا
تِرے بعد مجھ سے کوئی دعا نہیں ہو سکی
مِرا اشک چشمۂ چشم میں کہیں گُھل گیا
کوئی روشنی تھی مگر دِیا نہیں ہو سکی
وہ عجیب رنگ کی بے کلی مجھے دے گیا
اسے دل سے دور بہت کیا، نہیں ہو سکی
تِرا عکس دل میں جڑا رہا، سو پڑا رہا
تِری شکل آنکھ پہ آئینہ نہیں ہو سکی
تِری آنکھ سے مجھے اِذنِ حرف نہ مل سکا
مِری آرزو مِرا مدعا نہیں ہو سکی
مِرے ہونٹ پر گُلِ گفتگو نہیں کھل رہا
یہ بہار بھی مِرا ماجرا نہیں ہو سکی
دلِ شاعراں میں وہ پھانس بن کے چُبھی رہی
کوئی واردات جو واقعہ نہیں ہو سکی

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment