Sunday 14 December 2014

شکوهٔ مختصر مجھے شکوہ نہیں دنیا کی ان زہرہ جبینوں سے

شکوهٔ مختصر

مجھے شکوہ نہیں دنیا کی اُن زہرہ جبینوں سے
ہوئی جن سے نہ میرے شوقِ رُسوا کی پزیرائی
مجھے شکوہ نہیں اُن پاک باطن نُکتہ چینوں سے
لبِ معجز نُما نے جن کے، مجھ پر آگ برسائی
مجھے شکوہ نہیں تہذیب کے اُن پاسبانوں سے
نہ لینے دی جنہوں نے فطرتِ شاعر کو انگڑائی
مجھے شکوہ نہیں دَیر و حرم کے آستانوں سے
وہ، جن کے در پہ کی ہے مدتوں میں نے جبیں سائی
مجھے شکوہ نہیں افتادگانِ عیش و عشرت سے
وہ، جن کو میرے حالِ زار پر اکثر ہنسی آئی
مجھے شکوہ نہیں اُن صاحبانِ جاہ و ثروت سے
نہیں آئی میرے حصے میں جن کی ایک بھی پائی
زمانے کے نظامِ زنگ آلودہ سے شکوہ ہے
قوانینِ کہن، آئینِ فرسودہ سے شکوہ ہے

اسرار الحق مجاز
(مجاز لکھنوی)

No comments:

Post a Comment