Sunday 14 December 2014

طفلی کے خواب: طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں

طفلی کے خواب

طفلی میں آرزو تھی کسی دل میں ہم بھی ہوں
اک روز سوز و ساز کی محفل میں ہم بھی ہوں
دل ہو اسیر گیسوئے عنبر سرشت میں
الجھے انہیں حسین سلاسل میں ہم بھی ہوں
چھیڑا ہے ساز حضرتِ سعدی نے جس جگہ
اس بوستاں کے شوخ عنادل میں ہم بھی ہوں
گائیں ترانے دوشِ ثریا پہ رکھ کے سر
تاروں سے چھیڑ ہو مہِ کامل میں ہم بھی ہوں
آزاد ہو کے کشمکشِ الم سے کبھی
آشفتگانِ عشق کی منزل میں ہم بھی ہوں
دیوانہ وار ہم بھی پھریں کوہ و دشت میں
دلدادگانِ شعلۂ محمل میں ہم بھی ہوں
دل کو ہو شاہزادئ مقصد کی دُھن لگی
حیراں سراغِ جادۂ منزل میں ہم بھی ہوں
صحرا ہو، خارزار ہو، وادی ہو، آگ ہو
اک دن انہیں مہیب منازل میں ہم بھی ہوں
دریائے حشر خیز کی موجوں کو چِیر کر
کشتی سمیت دامنِ ساحل میں ہم بھی ہوں
اک لشکرِ عظیم ہو مصروفِ کارزار
لشکر کے پیش پیش مقابل میں ہم بھی ہوں
چمکے ہمارے ہاتھ میں بھی تیغِ آبدار
ہنگامِ جنگ نرغۂ باطل میں ہم بھی ہوں
قدموں پہ جن کے تاج ہیں اقلیمِ دہر کے
اُن چند کشتگانِ غمِ دل میں ہم بھی ہوں

اسرار الحق مجاز
(مجاز لکھنوی)

No comments:

Post a Comment