Thursday 18 April 2024

بابا تمہاری جانب دعا کے موتی روانہ کرتے

 بابا


تمہاری جانب دعا کے موتی روانہ کرتے

دکھا یہ سکتے

کہ لاڈلی کی سُنہری آنکھیں بھری ہوئی تھیں

وہ ایک چِٹھی کہ جس میں خُود کو دِلاسہ دیتے

بِلک رہی تھی

وہ بِکھرے صفحات ڈائری کے

کبھی بہار بنے اور سنور گئے ہم لوگ

 کبھی بہار بنے اور سنور گئے ہم لوگ

کبھی غبار کی صورت بکھر گئے ہم لوگ

کبھی حیات کے خورشید ماہتاب ہوئے

کبھی حیات کو تاریک کر گئے ہم لوگ

کبھی ہجوم حوادث سے بے خطر گزرے

کبھی ہواؤں کے جھونکوں سے ڈر گئے ہم لوگ

روح میں درد کا پیوند لگانے والا

 روح میں درد کا پیوند لگانے والا

تیرا ہر خواب ہے پلکوں کو جلانے والا

اک تصور کے سوا رات کے سناٹے میں

کون ہے بند کواڑوں کو ہلانے والا

میری حسرت ہے سلیقے سے کوئی تیر چلے

کیا یہاں کوئی نہیں ٹھیک نشانے والا

محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے

 محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے

یہ اس سیارے کا قصہ نہیں ہے

کہیں دریا کہیں صحرا نہیں ہے

ہر اک رستے میں اک رستہ نہیں ہے

اسے میں کیوں پکارے جا رہا ہوں

وہی تو ہے جو کچھ سنتا نہیں ہے

فلسفے کو عشق کی دھیمی سلگتی آگ پر

 فلسفے کو عشق کی دھیمی سلگتی آگ پر

شعر ہونے کے لیے کتنے زمن کَڑھنا پڑا

احسن تقویم کی فطرت سمجھنے کے لیے

لومڑی کے بعد سانپوں کا چلن پڑھنا پڑا

دخترِ انگور کی دوشیزگی کو الوداع

ہاں وہ مِینا بن گئی پر چار دن سڑنا پڑا

ہر دل میں ایک قبرستان ہوتا ہے

 قتل


ہر دل میں ایک قبرستان ہوتا ہے 

اس قبرستان میں ٹوٹے ہوئے رشتوں 

اور کھوئے ہوئے دوستوں کی قبریں موجود رہتی ہیں 

کچھ مزاروں پر چراغ جلتے رہتے ہیں 

جن میں خون جلتا اور یادیں دھواں دیتی رہتی ہیں 

کچھ قبریں ویران رہتی ہیں 

Wednesday 17 April 2024

برف کا ڈھیر ہوں صحرا ہوں نہ دریا ہوں میں

 برف کا ڈھیر ہوں صحرا ہوں نہ دریا ہوں میں

مت کو مت سوچ کہ آزاد پرندہ ہوں میں

میری رگ رگ میں لہو دوڑ رہا ہے تیرا

غور سے دیکھ مجھے تیرا ہی چہرہ ہوں میں

دُھوپ ٹھہری ہے نہیں آ کے کبھی میرے قریب

وقت کے تار پہ بھیگا ہوا کپڑا ہوں میں