بابا
تمہاری جانب دعا کے موتی روانہ کرتے
دکھا یہ سکتے
کہ لاڈلی کی سُنہری آنکھیں بھری ہوئی تھیں
وہ ایک چِٹھی کہ جس میں خُود کو دِلاسہ دیتے
بِلک رہی تھی
وہ بِکھرے صفحات ڈائری کے
بابا
تمہاری جانب دعا کے موتی روانہ کرتے
دکھا یہ سکتے
کہ لاڈلی کی سُنہری آنکھیں بھری ہوئی تھیں
وہ ایک چِٹھی کہ جس میں خُود کو دِلاسہ دیتے
بِلک رہی تھی
وہ بِکھرے صفحات ڈائری کے
کبھی بہار بنے اور سنور گئے ہم لوگ
کبھی غبار کی صورت بکھر گئے ہم لوگ
کبھی حیات کے خورشید ماہتاب ہوئے
کبھی حیات کو تاریک کر گئے ہم لوگ
کبھی ہجوم حوادث سے بے خطر گزرے
کبھی ہواؤں کے جھونکوں سے ڈر گئے ہم لوگ
روح میں درد کا پیوند لگانے والا
تیرا ہر خواب ہے پلکوں کو جلانے والا
اک تصور کے سوا رات کے سناٹے میں
کون ہے بند کواڑوں کو ہلانے والا
میری حسرت ہے سلیقے سے کوئی تیر چلے
کیا یہاں کوئی نہیں ٹھیک نشانے والا
محبت ہے مگر دھوکا نہیں ہے
یہ اس سیارے کا قصہ نہیں ہے
کہیں دریا کہیں صحرا نہیں ہے
ہر اک رستے میں اک رستہ نہیں ہے
اسے میں کیوں پکارے جا رہا ہوں
وہی تو ہے جو کچھ سنتا نہیں ہے
فلسفے کو عشق کی دھیمی سلگتی آگ پر
شعر ہونے کے لیے کتنے زمن کَڑھنا پڑا
احسن تقویم کی فطرت سمجھنے کے لیے
لومڑی کے بعد سانپوں کا چلن پڑھنا پڑا
دخترِ انگور کی دوشیزگی کو الوداع
ہاں وہ مِینا بن گئی پر چار دن سڑنا پڑا
قتل
ہر دل میں ایک قبرستان ہوتا ہے
اس قبرستان میں ٹوٹے ہوئے رشتوں
اور کھوئے ہوئے دوستوں کی قبریں موجود رہتی ہیں
کچھ مزاروں پر چراغ جلتے رہتے ہیں
جن میں خون جلتا اور یادیں دھواں دیتی رہتی ہیں
کچھ قبریں ویران رہتی ہیں
برف کا ڈھیر ہوں صحرا ہوں نہ دریا ہوں میں
مت کو مت سوچ کہ آزاد پرندہ ہوں میں
میری رگ رگ میں لہو دوڑ رہا ہے تیرا
غور سے دیکھ مجھے تیرا ہی چہرہ ہوں میں
دُھوپ ٹھہری ہے نہیں آ کے کبھی میرے قریب
وقت کے تار پہ بھیگا ہوا کپڑا ہوں میں