Wednesday 31 March 2021

گزر رہا ہوں لگاتار اک اذیت سے

 گزر رہا ہوں لگا تار اک اذیت سے

مجھے نکال کہانی کی مرکزیت سے

جو کہہ رہے میں عالم نہیں ہوں اُمّی ہوں

وہ لوگ خوفزدہ ہیں مِری وصیت سے

بدن کو پاک کیا وصل کی زکوٰة کے ساتھ

نماز ہجر پڑھی قربتن کی نیت سے

اک جہان بےخبر ہے اور میں

 اک جہان بے خبر ہے اور میں

رائیگانی کا سفر ہے، اور میں

اک طلسمِ خامشی میلوں تلک

رات کا پچھلا پہر ہے، اور میں

دیکھیے کس اور لے جائے ڈگر

آبلہ پائی کا سفر ہے، اور میں

زخم سینے میں کھا کے دیکھ لیا

 زخم سینے میں کھا کے دیکھ لیا

تیری محفل میں جا کے دیکھ لیا

جاں بھی تجھ کو دیں گے یہ سوچ لیا

دل یہ تجھ پر گنوا کے دیکھ لیا

عشق میں کچھ بھی ہاتھ آتا نہیں

ہم نے سب کچھ لُٹا کے دیکھ لیا

بچھڑے ہیں تو پہلی سی روایت نہیں چھوڑی

 بچھڑے ہیں تو پہلی سی روایت نہیں چھوڑی

اس بار ملاقات کی صورت نہیں چھوڑی

یہ بات بھی سچ ہے کہ تعلق نہیں رکھا

یہ بات بھی سچ ہے کہ محبت نہیں چھوڑی

اس بار بھی ملحوظ رہی خاطرِ دشمن

اس بار بھی لہجے کی لطافت نہیں چھوڑی

کچھ سفر آگے بڑھا کچھ ہمسفر آگے بڑھے

 کچھ سفر آگے بڑھا کچھ ہمسفر آگے بڑھے

ہم پریشاں تھے کہ کیا ہو گا اگر آگے بڑھے

مشکلیں چارہ گروں کے گھر تک آ پہنچی ہیں اب

ہے اگر کوئی کسی کا چارہ گر آگے بڑھے؟

راستے یوں تو سبھی منزل کو جاتے ہیں مگر

اجنبی کو چاہیے وہ دیکھ کر آ گے بڑھے

میں خود سے دور تھا اور مجھ سے دور تھا وہ بھی

 میں خود سے دور تھا اور مجھ سے دور تھا وہ بھی

بہاؤ تیز تھا،۔ اور زد میں آ گیا وہ بھی

چھُوا ہی تھا کہ فضا میں بکھر کے پھیل گیا

مِری ہی طرح دھوئیں کی لکیر تھا وہ بھی

یہ دیکھنے کے لیے پھر پلٹ نہ جاؤں کہیں

میں گُم نہ ہو گیا جب تک کھڑا رہا وہ بھی

جگنوؤں کے شہر میں تم اک ستارہ ڈھونڈنا

 جگنوؤں کے شہر میں تم اک ستارہ ڈھونڈنا

اتنا مشکل تو نہیں مجھ کو دوبارہ ڈھونڈنا

ساتھ ہو ناصح اگر تو کس قدر دشوار ہے

مے کدے میں اپنے غلطی کا کفارہ ڈھونڈنا

ساری امیدیں کسی کچے گھڑے کو سونپ کر

عمر بھر جو نہ ملے ایسا کنارہ ڈھونڈنا

آج جلتی ہوئی ہر شمع بجھا دی جائے

 آج جلتی ہوئی ہر شمع بجھا دی جائے

غم کی توقیر ذرا اور بڑھا دی جائے

کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے

جب سنور جائے چمن، آگ لگا دی جائے

عقل کا حکم کہ ساحل سے لگا دو کشتی

دل کا اصرار کہ طوفاں سے لڑا دی جائے

انجان لگ رہا ہے مرے غم سے گھر تمام

 انجان لگ رہا ہے مِرے غم سے گھر تمام

حالانکہ میرے اپنے ہیں دیوار و در تمام

صیّاد سے قفس میں بھی کوئی گِلہ نہیں

میں نے خود اپنے ہاتھ سے کاٹے ہیں پر تمام

جتنے بھی معتبر تھے وہ نا معتبر ہوئے

رہزن بنے ہوئے ہیں یہاں راہبر تمام

سمت بدلی گئی بہانے سے

 سمت بدلی گئی بہانے سے

وار چُوکا نہ تھا نشانے سے

جان اتنی بھی قیمتی تو نہیں

وہ ہی مانے نہ گر گنوانے سے

آپ کا نام کس طرح آیا؟

میری آنکھوں کے بھیگ جانے سے

اک خیال افروز موج آئی تو تھی

 اک خیال افروز موج آئی تو تھی

میں نے اپنی سطر مہکائی تو تھی

تم نہیں تھے یاد تھی ہر سو محیط

میں نہیں تھی میری تنہائی تو تھی

در بدر بے پیرہن تھا خواب عشق

میں نے اس کو آنکھ پہنائی تو تھی

ہر تار نفس خار ہے معلوم نہیں کیوں

 ہر تارِ نفس خار ہے معلوم نہیں کیوں 

آسان بھی دُشوار ہے معلوم نہیں کیوں 

سو بار مروں اور جیوں تب انہیں پاؤں 

دل اس پہ بھی تیار ہے معلوم نہیں کیوں

اک بار ملی ان سے نظر، پی نہیں کوئی 

پھر بہکی سی رفتار ہے معلوم نہیں کیوں

دل کہہ رہا ہے ان کی نظر دیکھتے ہوئے

 دل کہہ رہا ہے ان کی نظر دیکھتے ہوئے

دیکھیں گے کیا اِدھر وہ اُدھر دیکھتے ہوئے

اُمید تھی کسے کہ گُزر جائیں گے یہ دن

دل پر وفُورِ غم کا اثر دیکھتے ہوئے

اپنا تو حال یہ ہے کہ اک عُمر کٹ گئی

دُنیائے دل کو زیر و زبر دیکھتے ہوئے

رستے کتنا تھک جاتے ہیں

 رستے کتنا تھک جاتے ہیں

پھر بھی منزل تک جاتے ہیں

پتوں کو آرام نہیں ہے

کان ہوا کے پک جاتے ہیں

ایک طرف سے تم آتے ہو

چاروں اور دھڑک جاتے ہیں

وہاں ہر ایک اسی نشۂ انا میں ہے

 وہاں ہر ایک اسی نشۂ انا میں ہے

کہ خاکِ رہگزر یار بھی ہوا میں ہے

الف سے نام ترِا تیرے نام سے میں الف

الٰہی میرا ہر اک درد اس دعا میں ہے

وہی کسیلی سی لذت، وہی سیاہ مزہ

جو صرف ہوش میں تھا حرفِ ناروا میں ہے

اس کا انداز ظالمانہ تھا

 اس کا انداز ظالمانہ تھا

پھر بھی خاموش سب زمانہ تھا

اس کے ہونے سے کیا ہوا لوگو

اس کا ہونا تو اک بہانہ تھا

وہ نہ آیا ہمارے پُرسے کو

ورنہ ہر گھر میں آنا جانا تھا

دائرہ میں گماں کے رہتا ہے

 دائرہ میں گماں کے رہتا ہے

تیر جب تک کماں میں رہتا ہے

کون تجھ سے عزیز تر ہو گا

تو مِرے جسم و جاں میں رہتا ہے

ان سے شیریں بیانیوں کی امید

زہر جن کی زباں میں رہتا ہے

کیسے سکون پاؤں تجھے دیکھنے کے بعد

 کیسے سکون پاؤں تجھے دیکھنے کے بعد

اب کیا غزل سناؤں تجھے دیکھنے کے بعد

آواز دے رہی ہے میری زندگی مجھے

جاؤں میں یا نہ جاؤں تجھے دیکھنے کے بعد

کعبہ کا احترام بھی میری نظر میں ہے

سر کس طرف جھکاؤں تجھے دیکھنے کے بعد

جہاں بھی ہو اداسی آ ہی جاتی ہے خبر مجھ تک

 نظم کا آغاز کرتا ہوں


جہاں بھی ہو اُداسی

آ ہی جاتی ہے خبر مجھ تک

کسی تنہا مسافر کا

پہنچ جاتا ہے سب رنجِ سفر مجھ تک

جہاں جتنی بھی ہو تنہائی

تم جو آؤ گے تو موسم دوسرا ہو جائے گا

 تم جو آؤ گے تو موسم دوسرا ہو جائے گا

لُو کا جھونکا بھی چلے گا تو صبا ہو جائے گا

زندگی! میں قتل کر کے تجھ کو نکلا تھا مگر

کیا خبر تھی پھر تِرا ہی سامنا ہو جائے گا

نفرتوں نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ہمیں

جب یہ دیواریں گریں گی، راستہ ہو جائے گا

آنکھوں میں بیج خواب کا بونے نہیں دیا

 آنکھوں میں بیج خواب کا بونے نہیں دیا

اک پَل بھی اس نے چین سے سونے نہیں دیا

اشکوں سے دل کا زخم بھی دھونے نہیں دیا

مجھ کو خود اپنے حال پہ رونے نہیں دیا

یہ اور بات ہے وہ مِرا ہو نہیں سکا

لیکن مجھے کسی کا بھی ہونے نہیں دیا

پلایا اس نے جب سے شربت دیدار چٹکی میں

 پلایا اس نے جب سے شربتِ دیدار چٹکی میں 

نمایاں ہیں تبھی سے عشق کے آثار چٹکی میں 

خزاں دیدہ تھا اس سے پہلے میرا گلشنِ ہستی 

مرا باغِ تمنا ہو گیا گلزار، چٹکی میں 

کیا عرضِ تمنا میں نے جب وہ ہنس کے یہ بولے 

نہیں کرتے کسی سے عشق کا اظہار چٹکی میں

کہیں جمال ازل ہم کو رونما نہ ملا

 کہیں جمال ازل ہم کو رونما نہ ملا

ملے تو حسن مگر حسن آپ سا نہ ملا

رہی تلاش مگر درد آشنا نہ ملا

ہمارے بعد انہیں ہم سا با وفا نہ ملا

گئے ہیں دیر و حرم میں بھی بارہا لیکن

وہ آسرا جو دیا تُو نے ساقیا! نہ ملا

اک عشق ہے کہ جس کی گلی جا رہا ہوں میں

 اک عشق ہے کہ جس کی گلی جا رہا ہوں میں

اور دل کی دھڑکنوں سے بھی گھبرا رہا ہوں میں

کر دے گا وہ معاف مِرے ہر گناہ کو

یہ سوچ کر گناہ کئے جا رہا ہوں میں

چھوڑا کہیں کا مجھ کو نہ دنیا کے درد نے

پھر بھی تِرا کرم کہ جئے جا رہا ہوں میں

بے قراری رہے تو کیسا ہو

 بے قراری رہے تو کیسا ہو 

تجھ سے یاری رہے تو کیسا ہو 

میری دھڑکن میں تیری آہٹ کا 

رقص جاری رہے تو کیسا ہو 

ایک نشہ تِری رفاقت کا 

مجھ پہ طاری رہے تو کیسا ہو 

جو تری قربتوں کو پاتا ہے

 جو تِری قربتوں کو پاتا ہے

اس کو مرنے میں ‌لطف آتا ہے

میں جسے آشنا سمجھتا ہوں

دُور بیٹھا وہ مُسکراتا ہے

میں تو ممنون ہوں زمانے کا

سیکھ لیتا ہوں جو سِکھاتا ہے

وجد آور تھا ترا جلوہ نما ہو جانا

 وجد آور تھا تِرا جلوہ نما ہو جانا

روح فرسا ہے مگر مل کے جُدا ہو جانا

غمزہ و ناز و ادا یاد ہے تیرا جس سے

دل کا میرے ہدفِ تیرِ قضا ہو جانا

یاد ہے اب بھی وہ شمعِ رخِ زیبا تیری

مثلِ پروانہ مِرا اس پہ فدا ہو جانا

کوئی نہ چاہنے والا تھا حسن رسوا کا

 کوئی نہ چاہنے والا تھا حُسنِ رُسوا کا

دیار غم میں رہا دل کو پاس دنیا کا

فریبِ صبحِ بہاراں بھی ہے قبول ہمیں

کوئی نقیب تو آیا پیامِ فردا کا

ہم آج راہِ تمنا میں جی کو ہار آئے

نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا

آ کر حال سناؤ تم بھی

 آ کر حال سناؤ تم بھی

رُخ سے پردہ ہٹاؤ تم بھی

میرا قبیلہ سینہ سِپر ہے

اب تلوار اٹھاؤ تم بھی

لو میں پردہ چھوڑ کے آیا

اپنی نظریں بچاؤ تم بھی

ستم کچھ اور ہم اس چارہ گر کے دیکھ لیتے ہیں

 ستم کچھ اور ہم اس چارہ گر کے دیکھ لیتے ہیں

کہ اس کے دل میں پھر سے ہم اُتر کے دیکھ لیتے ہیں

جو ہے اس ہجر کے صحرا سے آگے وصل کی وادی

تو پھر اس دشتِ ویراں سے گُزر کے دیکھ لیتے ہیں

غمِ دوراں سے فُرصت مل گئی مجھ کو تو چند لمحے

تیری یادوں کے سائے میں ٹھہر کے دیکھ لیتے ہیں

یہاں سے نکلو یہاں سے نکلیں کہاں پہ جائیں

 یہاں سے نکلو

یہاں سے نکلیں، کہاں پہ جائیں؟

کہیں بھی جاؤ، یہاں سے نکلو

مگر، ہمارے تو گھر یہیں ہیں

تمہارے گھر تھے، پر اب نہیں ہیں

ہمارے دستِ ہوس کی دستک تمہاری بستی پہ ہو چکی ہے

دل نے ٹھوکر کھا کے سمجھا حادثہ کیا چیز ہے

 دل نے ٹھوکر کھا کے سمجھا حادثا کیا چیز ہے

غم کسے کہتے ہیں، دردِ لا دوا کیا چیز ہے

محوِ حیرت ہوں یہ دنیا سے جدا کیا چیز ہے

آپ کا پیغام بے حرف و صدا کیا چیز ہے

اس کے معنی خود پسندی کے سوا کچھ بھی نہیں

دل میں پیہم خواہش دادِ وفا کیا چیز ہے

مرے پہلو سے جو نکلے وہ مری جاں ہو کر

 مِرے پہلو سے جو نکلے وہ مِری جاں ہو کر

رہ گیا شوق دلِ زار میں ارماں ہو کر

زیست دو روزہ ہے ہنس کھیل کے کاٹو اس کو

گُل نے یہ راز بتایا مجھے خنداں ہو کر

اشک شادی ہے یہ کچھ مژدہ صبا لائی ہے

شبنم آلودہ ہوا پھُول جو خنداں ہو کر

آنکھ چرا کر نکل گئے ہشیاری کی

 آنکھ چُرا کر نکل گئے، ہُشیاری کی

سمجھ گئے تم بھی موقعے کی باریکی

دریا پار سفر کی جب تیاری کی

موسم نے ہر بار بڑی غداری کی

اب لگتا ہے مُڑ کے دیکھ تو سکتا تھا

آخر حد بھی ہوتی ہے خودداری کی

کیوں چلے آتے ہیں دلدار منانے مجھ کو

 کیوں چلے آتے ہیں دلدار منانے مجھ کو

پاؤں آتے نہیں پانی پہ جمانے مجھ کو

ہر اک نعمت سے نوازا ہے خدا نے مجھ کو

تھام رکھا ہے کسی دستِ دعا نے مجھ کو

میں سخن میں تو کوئی کارِ نمایاں کر لوں

میں طلبگار ہوں، دے اپنے خزانے مجھ کو

کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے

 کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے

ہمیں ہوا کی زد میں تھے ہمیں شکار ہو گئے

سیاہ دشتِ خار سے کہاں دو چار ہو گئے

کہ شوقِ پیرہن تمام تار تار ہو گئے

یہاں جو دل میں داغ تھا وہی تو اک چراغ تھا

وہ رات ایسا گُل ہوا کہ شرمسار ہو گئے

کچھ حوصلہ ہمیں دل ناشاد چاہیے

 کچھ حوصلہ ہمیں دلِ ناشاد چاہیے

اپنے بچاؤ کے لیے امداد چاہیے

محسوس ہورہی عجب حاجتیں ہمیں

ہم کو خدا کے بعد خدا داد چاہیے

سچ جھوٹ ماپنے کے بھی پیمانے آ چکے

اب اس بڑھ کے کچھ نئی ایجاد چاہیے

ہو ترا عشق مری ذات کا محور جیسے

 ہو تِرا عشق مِری ذات کا محور جیسے

اسی احساس کی میں ہو گئی خوگر جیسے

ایک ویرانی تِرے لہجے سے آئی مجھ تک

پھر وہی میرے اتر آئی ہو اندر جیسے

کوئی بھی کام میرے حق میں نہیں ہو پاتا

رُوٹھ کر بیٹھ گیا ہو یہ مقدر جیسے

جو میکدے میں بہکتے ہیں لڑکھڑاتے ہیں

 جو میکدے میں بہکتے ہیں لڑکھڑاتے ہیں

مِرا خیال ہے وہ تشنگی چھُپاتے ہیں

ذرا سا وقت کے سورج نے رُخ جو بدلا ہے

مِرے وجود پہ کچھ سائے مسکراتے ہیں

دلوں کی سمت پہ لفظوں کے سنگ مت پھینکو

ذرا سی ٹھیس سے آئینے ٹُوٹ جاتے ہیں

اس شہر میں انصاف کا معیار دیکھ کر

اس شہر میں انصاف کا معیار دیکھ کر

بازار بک گیا ہے خریدار دیکھ کر

میدانِ کارزار میں حیران ہو گئے

ہم دوستوں کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

مرتے ہیں یہاں ہر گھڑی اربابِ بصیرت

جیتے نہیں ہیں وقت کی رفتار دیکھ کر

حد فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی

 حدِ فاصل تو فقط درد کا صحرا نکلی

چشم افسردگیٔ خشک ہی دریا نکلی

اک ذرا ٹھیس لگی ٹوٹ گئی ہمتِ جاں

آہنی جس کو سمجھتے تھے وہ شیشہ نکلی

روز و شب اک نئی امید نئی سی الجھن

آزمائش جسے سمجھے تھے نتیجہ نکلی

رات کی خاموشی کا ماتھا ٹھنکا تھا

 رات کی خاموشی کا ماتھا ٹھنکا تھا

جانے کس کے ہاتھ کا کنگن کھنکا تھا

جھیل نے اپنے سینے پر یوں ٹانک لیا

جیسے میں آوارہ چاند گگن کا تھا

اس کا لان بہاروں سے آباد رہا

سُوکھ گیا جو پیڑ مِرے آنگن کا تھا

دن جدائی کا دیا وصل کی شب کے بدلے

 دن جدائی کا دیا وصل کی شب کے بدلے

لینے تھے اے فلک پیر یہ کب کے بدلے

راحتِ وصل کسی کو، تو کسی کو غمِ ہجر

صبر خالق نے دیا ہے مجھے سب کے بدلے

اتنی سی بات پہ بِگڑے ہی چلے جاتے ہو

لے لو تم بوسۂ لب، بوسۂ لب کے بدلے

اپنے دکھوں کا ہم نے تماشہ نہیں کیا

 اپنے دکھوں کا ہم نے تماشہ نہیں کیا

فاقے کیے مگر کبھی شکوہ نہیں کیا

بے گھر ہوئے تباہ ہوئے دربدر ہوئے

لیکن تمہارے نام کو رُسوا نہیں کیا

گو ہم چراغ وقت کو روشن نہ کر سکے

پر اپنی ذات سے تو اندھیرا نہیں کیا

حجاب بن کے وہ میری نظر میں رہتا ہے

 حجاب بن کے وہ میری نظر میں رہتا ہے 

مجھی سے پردہ ہے میرے ہی گھر میں رہتا ہے 

کبھی کسی کا تجسس کبھی خود اپنی تلاش 

عجیب دل ہے ہمیشہ سفر میں رہتا ہے 

جسے خیال سے چھُوتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں 

اک ایسا حُسن بھی میری نظر میں رہتا ہے

شور دریا ہے کہانی میری

 شورِ دریا ہے کہانی میری

پانی اس کا ہے روانی میری

کچھ زیادہ ہی بھلی لگتی ہے

مجھ کو تصویر پرانی میری

جب بھی ابھرا تِرا مہتابِ خیال

کھِل اُٹھی رات کی رانی میری

غم ہمارا گلاب ہو جائے

 غم ہمارا گلاب ہو جائے

زندگی لا جواب ہو جائے

یاد نے حرف حرف گھیرا ہے

گر لکھوں تو کتاب ہو جائے

دشمنوں کی طرف بھی جائیں گے

دوستوں سے حساب ہو جائے

کماں نہ تیر نہ تلوار اپنی ہوتی ہے

 کماں، نہ تیر، نہ تلوار اپنی ہوتی ہے

مگر یہ دنیا کہ ہر بار اپنی ہوتی ہے

یہی سِکھایا ہے ہم کو ہمارے لوگوں نے

جو جنگ جیتے وہ تلوار اپنی ہوتی ہے

زبان چِڑیوں کی دنیا سمجھ نہیں سکتی

قبول و رد کی یہ تکرار اپنی ہوتی ہے

بزم وفا سجی تو عجب سلسلے ہوئے

 بزمِ وفا سجی تو عجب سلسلے ہوئے

شِکوے ہوئے نہ ان سے، نہ ہم سے گِلے ہوئے

پت جھڑ کا ذکر عہدِ خِزاں میں نہ ہو سکا

تھے سر زمینِ دل پہ شگوفے کھِلے ہوئے

اِک عمر سے ہے دوش پہ بارِ مسافت

سنتے تھے منزلوں سے ہیں رستے مِلے ہوئے

بار کرم سے آپ کے سر زیر بار ہے

 بارِ کرم سے آپ کے سر زیرِ بار ہے

اپنی سبک سری سے بھی دل شرمسار ہے

زردی میں پتیوں کی کچھ ایسا نِکھار ہے

اس باغ کی خِزاں بھی بہ رنگِ بہار ہے

لے دے کے ایک زندگئ مستعار ہے

جس پر بھی تیرے عشق کا سودا سوار ہے

تو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہیر دیں گے

 تُو سوچتا ہے یہ لوگ رانجھے کو ہِیر دیں گے

یہ بھیڑیے نوچ کر بدن اس کا چِیر دیں گے

تمہارا دُشمن نشانہ باندھے گا جب بھی تم پر

یہ دوست جا کر کمان میں اس کی تِیر دیں گے

تِری بصارت سے رنگ چھینیں گے زندگی کے

صِلے میں رنگین خواب، آنکھوں کو نِیر دیں گے

کتنا چلے مسافر صدمات کے سفر میں

 کتنا چلے مسافر صدمات  کے سفر میں

کب تک دِیا جلے گا برسات کے سفر میں

تِیرہ شبی مقدر کچھ اس طرح بھی ٹھہرا

تم نے بھی ساتھ چھوڑا اس رات کے سفر میں

ملتے ہیں آج سارے  بدلے ہوئے جہاں میں

دنیا بدل گئی ہے حالات کے سفر میں

بارہا لوٹے ہوں جس نے آشنائی کے مزے

 بارہا لُوٹے ہوں جس نے آشنائی کے مزے

ہوں اسی عاشق کی قسمت میں جدائی کے مزے

اللہ، اللہ، ابتدائے آشنائی کے مزے

وہ گدازِ قلب وہ دل کی صفائی کے مزے

خانۂ دل بن گیا ہے سر بہ سر ایک پیکِ نُور

آہ، اس چشمِ حیا کی پارسائی کے مزے

ہر سو دھند کا پہرہ ہے

 میری اداس آنکھیں


ہر سُو 

دُھند کا پہرہ ہے 

رات خاموش ہے 

مٹ میلی چاندنی 

اُتر آئی ہے میرے آنگن میں 

کیا بتاؤں کہ کس گمان میں ہوں

 کیا بتاؤں کہ کس گُمان میں ہوں

مستقل ایک امتحان میں ہوں

آبلہ پا ہوں اور سفر میں ہوں

پر بُریدہ ہوں اور اُڑان میں ہوں

خود سری رکھ کے شاہزادی سی

کچھ کنیزوں کے درمیان میں ہوں

لگا ہو دل تو خیالات کب بدلتے ہیں

 لگا ہو دل تو خیالات کب بدلتے ہیں

یہ انقلاب تو اک بے دلی میں پلتے ہیں

نکل چکے ہیں بہت دُور قافلے والے

ہمیں خبر نہیں ہم کس کے ساتھ چلتے ہیں

کبھی ہمیں بھی ملاؤ تو ایسے لوگوں سے

کہ جن کی آنکھ میں اب تک چراغ جلتے ہیں

آپ کے دل پہ ہے حکمرانی مری

 آپ کے دل پہ ہے حکمرانی مِری

جان لےلےگی یہ خوش گمانی مری

عشق ریشم کا دھاگہ تھا، کھُلتا گیا

درد بُنتا گیا رائیگانی مری

میں تِرا گھر بنانے میں مصروف تھی

مجھ پہ ہنستی رہی بے مکانی مری

پیار جادو ہے کسی دل میں اتر جائے گا

 پیار جادو ہے کسی دل میں اُتر جائے گا

حسن اک خواب ہے اور خواب بکھر جائے گا

اپنی آنکھوں کو ذرا حدِ ادب میں رکھنا

ورنہ دھوکے میں کوئی جاں سے گزر جائے گا

اب کسی اور کا تم ذِکر نہ کرنا مجھ سے

ورنہ اک خواب جو آنکھوں میں ہے مر جائے گا

گھر سے میں جب بھی اکیلا نکل

 گھر سے میں جب بھی اکیلا نکل

مجھ سے پہلے مِرا سایہ نکلا

پھاڑ کر دامنِ صحرا نکلا

میرے اندر سے جو دریا نکلا

اک تبسم جو ملا تھا مجھ کو

وہ بھی اک زخمِ تمنا نکلا

ان سے ملا تو پھر میں کسی کا نہیں رہا

 ان سے ملا تو پھر میں کسی کا نہیں رہا

اور جب بچھڑ گیا تو خود اپنا نہیں رہا

دیوار ٹوٹنے کا عجب سلسلہ چلا

سایوں کے سر پہ اب کوئی سایہ نہیں رہا

ہر اک مکاں سے نام کی تختی اُتر گئی

دل کی فصیل پہ کوئی پہرہ نہیں رہا

شب فرقت قضا نہیں آتی

 شبِ فرقت قضا نہیں آتی

لاکھ کہتا ہوں آ، نہیں آتی

چُپ ہیں وہ سن کے شکوۂ اغیار

بات بھی تو بنا نہیں آتی

وہ تو وعدے پہ آ چکے اے موت

تُو بھی آتی ہے یا نہیں آتی

بسیط دشت کی حرمت کو بام و در دے دے

 بسیط دشت کی حُرمت کو بام و در دے دے

مِرے خدایا مجھے بھی تو ایک گھر دے دے

بشارتوں کے صحیفے اُتار آنکھوں پر

طلسمِ شب کے کلس توڑ کر سحر دے دے

میں تیرا نام لکھوں گا رِدائے کعبہ پر

قلم نصیب ہے، الفاظ معتبر دے دے

سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا

 سلسلہ ختم ہوا جلنے جلانے والا

اب کوئی خواب نہیں نیند اُڑانے والا

یہ وہ صحرا ہے سمجھائے نہ اگر تو رستہ

خاک ہو جائے یہاں خاک اُڑانے والا

کیا کرے آنکھ جو پتھرانے کی خواہش نہ کرے

خواب ہو جائے اگر خواب دکھانے والا

طعن طنز آوازے سن رہے ہو اب بولو

 طعن، طنز، آوازے سُن رہے ہو، اب بولو

بولنے کے خمیازے سن رہے ہو، اب بولو

بات بس ذرا سی تھی، بات ہی تو کی تم سے

شہر بھر کے آوازے سن رہے ہو، اب بولو

سر پھری ہواؤں میں گھر سے کیوں نکل آئے

بج رہے ہیں دروازے، سن رہے ہو، اب بولو

ہوئے ہیں بند دشاؤں کے سارے رستے آ

 ہوئے ہیں بند دِشاؤں کے سارے رستے آ

اندھیرا چھانے لگا لوٹ کر پرندے آ

میں تیری ساری تمازت کو جذب کر لوں گا

تو آفتاب کبھی میرے دل میں بُجھنے آ

کبھی دِکھا دے وہ منظر جو میں نے دیکھے نہیں

کبھی تو نیند میں اے خواب کے فرشتے! آ

یہ حسرتیں بھی مری سائیاں نکالی جائیں

 یہ حسرتیں بھی مِری سائیاں نکالی جائیں 

کہ دشت ہی کی طرف کھڑکیاں نکالی جائیں 

بہار گزری قفس ہی میں ہاؤ ہو کرتے 

خزاؤں میں تو مِری بیڑیاں نکالی جائیں 

یہ شام کافی نہیں ہے سیہ لباسی کو 

شفق سے اور ذرا سُرخیاں نکالی جائیں

نہ مستقل و جاوداں جمال ہے کمال ہے

 نہ مُستقل و جاوِداں جمال ہے، کمال ہے

کہ خوبصورتی کو بھی زوال ہے، کمال ہے

بحث مباحثے سے کچھ پرے جوابِ وصل پر

چلو مِرا حبیب ہم خیال ہے، کمال ہے

عجیب بے قرار زندگی کے شب و روز ہیں

تھکا سا دن ہے رات بھی نِڈھال ہے، کمال ہے

میں جب چھوٹا سا تھا کاغذ پہ یہ منظر بناتا تھا

 میں جب چھوٹا سا تھا کاغذ پہ یہ منظر بناتا تھا

کھجوروں کے درختوں کے تلے اک گھر بناتا تھا

میں آنکھیں بند کر کے سوچتا رہتا تھا پہروں تک

خیالوں میں بہت نازک سا اک پیکر بناتا تھا

میں اکثر آسماں کے چاند تارے توڑ لاتا تھا

اور اک ننھی سی گڑیا کے لیے زیور بناتا تھا

آنکھ کو سرمے کی دھاروں نے یوں تیکھا کر دیا

 آنکھ کو سُرمے کی دھاروں نے یوں تیکھا کر دیا

اک نظر بھی جس کو تاکا اس کو کُشتہ کر دیا

آرزو کو کچھ دنوں تک تو سنبھالے ہم رہے

ایک دن پھر تنگ آ کر اس کو چلتا کر دیا

یار! پیارے تم پہ ہم کو تو بھروسا اتنا تھا

ہم کو حیرت ہو رہی ہے تم نے ایسا کر دیا

جس دن سے یار مجھ سے وہ شوخ آشنا ہوا

 جس دن سے یار مجھ سے وہ شوخ آشنا ہُوا

رُسوا ہوا،۔ خراب ہوا،۔ مُبتلا ہوا

پہلے تو با وفا مجھے دِکھلایا آپ کو

جب دل کو لے چکا تو یہ کچھ بے وفا ہوا

افسوس کیوں کرے ہے ہمیں قتل کر کے تُو

ہم سا جو ایک مر گیا پیارے! تو کیا ہوا

یہ واعظ کیسی کیسی باتیں ہم سے کرتے ہیں​

 یہ واعظ کیسی کیسی باتیں ہم سے کرتے ہیں​

کہیں چڑھ کر شرابِ عشق کے نشے اترتے ہیں​

خدا سمجھے یہ کیا صیّاد و گُلچیں ظلم کرتے ہیں​

گُلوں کو توڑتے ہیں، بلبلوں کے پر کترتے ہیں​

دیا دم نزع میں گو آپ نے، پر روح چل نکلی​

کسی کے روکنے سے جانے والے کب ٹھہرتے ہیں​

خرد میں مبتلا ہے سالک دیوانہ برسوں سے

 خِرد میں مبتلا ہے سالک دیوانہ برسوں سے

نہیں آیا وہ میخانے میں بےباکانہ برسوں سے

میسر جس سے آ جاتی تھی ساقی کی قدم بوسی

مقدر میں نہیں وہ لغزشِ مستانہ برسوں سے

بیاد چشم یار اک نعرۂ مستانہ اے ساقی 

کہ ہاؤ ہو سے خالی ہے تِرا میخانہ برسوں سے 

موج گل برگ حنا آب رواں کچھ بھی نہیں

 موجِ گل، برگِ حنا، آبِ رواں کچھ بھی نہیں

اس جہانِ رنگ و بُو میں جاوِداں کچھ بھی نہیں

پھر وہی ذوقِ تعلق، پھر وہی کارِ جنوں

سر میں سودا ہے تو آشوبِ جہاں کچھ بھی نہیں

اک سمندر کتنا گہرا میرے پس منظر میں ہے

سامنے لیکن زمین و آسماں کچھ بھی نہیں

میری نظر کے لیے کوئی روایت نہ تھی

 میری نظر کے لیے کوئی روایت نہ تھی

سب کی طرح دیکھنا جبر تھا عادت نہ تھی

ایسا لگا جیسے میں منظر مانوس تھا

اس کی نگاہوں میں کل شوخیٔ حیرت نہ تھی

میرے شب و روز تھے میری صدی کی طرح

کون سا لمحہ تھا وہ جس میں قیامت نہ تھی

بے سر و ساماں کچھ اپنی طبع سے ہیں گھر میں ہم

 بے سر و ساماں کچھ اپنی طبع سے ہیں گھر میں ہم

شہر کہتے ہیں جسے ہیں اس کے پس منظر میں ہم

شام ڈوبی، پڑ رہے سورج کے در پر شب کی شب

صبح بکھری چل پڑے خود کو لیے ٹھوکر میں ہم

آگہی تُو نے ہمیں کن وُسعتوں میں گم کیا

بے نشاں ہر ملک میں بے آسرا ہر گھر میں ہم

کوئی دابی پور کماد کی

کوئی دابی پور کماد کی

اک منزل پچھلے چاند کی

نت روشن جس کی لَو

وہ وقت کو پیچھے چھوڑ گئی

اسے دھنّے واد کہو

دابی ہوئی پور کماد کی

تماشا تھا نہیں تھا تھا نہیں تھا

 تماشا تھا؟ نہیں تھا، تھا؟ نہیں تھا

جو دیکھا تھا نہیں تھا؟ تھا؟ نہیں تھا

سمجھ پایا نہیں میں عمر ساری

وہ میرا تھا؟ نہیں تھا، تھا؟ نہیں تھا

میں جیسا تم سے مل کر ہو گیا ہوں 

میں ایسا تھا؟ نہیں تھا، تھا؟ نہیں تھا

دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں

 دھوپ جب ڈھل گئی تو سایہ نہیں

یہ تعلق تو کوئی رشتہ نہیں؟

لوگ کس کس طرح سے زندہ ہیں

ہمیں مرنے کا بھی سلیقہ نہیں

خواب بھی اس طرف نہیں آتے

اس مکاں میں کوئی دریچہ نہیں

دل ہے کہ مانتا نہیں مشکل بڑی ہے رسمِ محبت یہ جانتا ہی نہیں

 فلمی گیت


دل ہے کہ مانتا نہیں

مشکل بڑی ہے رسمِ محبت 

یہ جانتا ہی نہیں

دل ہے کہ مانتا نہیں

یہ بے قراری کیوں ہو رہی ہے

یہ جانتا ہی نہیں

دل میں تو آنکھوں میں تو سانسوں میں تو

کلاسیکی فلمی گیت


دل میں تُو آنکھوں میں تُو سانسوں میں تُو

لب پہ تو، خیالوں میں تو خوابوں میں تو

دل میں تو آنکھوں میں تو سانسوں میں تو


کس بات کی انگڑائیاں لیتے ہوئے جلووں میں تو

دوپہر کے جگمگاتے آتشیں شعلوں میں

کیا ستم ہے ظلم ہے بیداد ہے

 فلمی گیت


کیا ستم ہے ظلم ہے بے داد ہے

میں یہاں اور تُو وہاں برباد ہے

کیا کروں کس سے کہوں جاؤں کہاں

اب قفس ہے، میں ہوں اور صیاد ہے

ایک وہ دن تھا کہ تم تھے اور ہم

اب فقط ہم ہیں، تمہاری یاد ہے

Tuesday 30 March 2021

غم نہیں یہ کہ انتظار کیا

 غم نہیں یہ کہ انتظار کیا

بلکہ یہ ہے کہ اعتبار کیا

بے تعلق ہی ہم تو اچھے تھے

اس تعلق نے اور خوار کیا

سچ تو یہ ہے کہ دیدہ و دل کو

مفت ہی میں گناہ گار کیا

قیام جس کا جہاں ہے وہیں کا دکھ سمجھے

 قیام جس کا جہاں ہے، وہیں کا دُکھ سمجھے

زمین زاد قط اس زمیں کا دکھ سمجھے

تو کیوں نہ مِل لیا جائے کسی سپیرے سے

امید ہے، وہ مِری آستیں کا دکھ سمجھے

مِرے علاوہ کوئی اور تو جہان میں ہو

جو ہر سوال کے آگے نہیں کا دکھ سمجھے

سامان روشنی شب ہجراں نہ ہو سکے

 سامانِ روشنی شبِ ہجراں نہ ہو سکے

پلکوں پہ یہ چراغ فروزاں نہ ہو سکے

اب کے بھی سوگوار رہا موسمِ بہار

شاخوں پہ پھول اب کے بھی خنداں نہ ہو سکے

کرتے رہے جو چاند ستاروں سے گفتگو

وہ آشنائے عظمتِ انساں نہ ہو سکے

یونہی دیر تک مرے ہمسفر

کبھی یوں بھی ہو مِرے ہمسفر

کہ یہ جگمگاتی سی رہگزر 

کہیں چاندنی کے حصار میں

کسی ڈھلتی شام کی اوٹ میں

ہمیں چپ کی شال میں ڈھانپ لے

ہمیں لے چلے کسی دیس میں

ہم اہل عزم اگر دل سے جستجو کرتے

 ہم اہلِ عزم اگر دل سے جستجو کرتے

تو اور منزلِ جاناں کو سرخرو کرتے

نہ دسترس میں بہاریں، نہ دل ہی قابو میں

غریبِ شہر کہاں تک جگر لہو کرتے

کسے خبر ہے کہ دل کے کنول کھلیں نہ کھلیں

کٹی ہے عمر بہاروں کی آرزو کرتے

کتنے لوگوں سے لگایا دل تم نے

 کتنے لوگوں سے لگایا دل تم نے

ہوئی ہے اذیت کسی کے جانے سے

خزانہ ملا ہے یا گھر ٹوٹا ہے

خبر یہ ملے گی دیوار گرانے سے

پہلے تو میسر تھا تجھے مفت میں

اب موت پڑ رہی ہے نا کمانے سے

دل دھڑک اٹھتا ہے ہنس کر گفتگو کرتے ہوئے

 دل دھڑک اٹھتا ہے ہنس کر گفتگو کرتے ہوئے

کھوکھلے احساس کی چادر رفُو کرتے ہوئے

جانے کس بے چارگی میں کھو گئی میری شناخت

عمر بیتی جا رہی ہے جــستجو کرتے ہوئے

لطف یہ کہ در پہ تھے جو مطمئن، دیکھا انہیں

بند دروازے کے پیچھے ہاؤ ہو کرتے ہوئے

ہر اک شجر قصیدہ تھا ہر اک کھجور نعت

 نعت سرور کائناتﷺ

کلام بر سفرِ معراجِ نبویﷺ و شبِ برأت


ہر اک شجر قصیدہ تھا ہر اک کھجُور نعت

صحرا کو کر گیا شبِ اسریٰ کا نُور نعت

احمدؐ، حمیدؐ، حامدؐ و محمودﷺ کی قسم

عین السطُور حمد ہے بین السطُور نعت

انجیل تیسری ہے، تو قرآن آخری

تورات پہلی نعت تھی دُوجی زبُور نعت

اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے

 اب چھلکتے ہوئے ساغر نہیں دیکھے جاتے

توبہ کے بعد، یہ منظر نہیں دیکھے جاتے

مست کر کے مجھے، اوروں کو لگا منہ ساقی

یہ کرم، ہوش میں رہ کر نہیں دیکھے جاتے

ساتھ ہر ایک کو، اِس راہ میں چلنا ہو گا

عشق میں رہزن و رہبر، نہیں دیکھے جاتے

غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں

 غم سے منسوب کروں، درد کا رشتہ دے دوں

زندگی! آ تجھے، جینے کا سلیقہ دے دوں

بے چراغی، یہ تیری شامِ غریباں! کب تک

چل، تجھے جلتے مکانوں کا اُجالا دے دوں

زندگی اب تو یہی شکل ہے، سمجھوتے کی

دُور ہٹ جاؤں تیری راہ سے، رستہ دے دوں

اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا

 اچھا ہُوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا

قطرہ گُہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا

زندہ جو بچ گئے ہیں سہیں نفرتوں کے دُکھ

اپنا گَلا تو پیار کے خنجر سے کٹ گیا

موسم بھی مُنفعل ہے بہت کیا بھروں اُڑان

رشتہ ہواؤں کا مِرے شہ پر سے کٹ گیا

رہتے ہیں کہیں اور مکاں اور کہیں ہے

 رہتے ہیں کہیں اور مکاں اور کہیں ہے

ہم مست الستوں کا جہاں اور کہیں ہے

ہم لوگ بہت دُور تلک بکھرے ہوئے ہیں

دل اپنا کہیں اور ہے جاں اور کہیں ہے

اس بار تو دشمن بھی اناڑی ہے بلا کا

ہے زخم کہیں اور نشاں اور کہیں ہے

ندی کے دلفریب بہاؤ میں آ گئے

 ندی کے دل فریب بہاؤ میں آ گئے

ہم سادہ لوگ تھے، تِرے داؤ میں آ گئے

دو چار دن کا ہجر گزارا ہے میں نے بھی

دو چار دن بھی ذہنی تناؤ میں آ گئے

وہ چاہتے نہیں تھے پرندوں کو بھیجنا

آندھی چلی تو پیڑ دباؤ میں آ گئے

سانوریا سے ہمری ناہیں بنی رے

 فلمی گیت


سانوریا سے ہمری ناہیں بنی رے

بس ایک بات چرنوں میں بچھنے کی کر

میں سو بار سیاں کے پیاں پڑی رے

سانوریا سے ہماری ناہیں بنی رے


میں اجڑی بھی سنوری بھی بگڑی بنی بھی

کہ پاؤں انہیں جیسے ویسے سجی رے

اشاروں اشاروں میں دل لینے والے

 فلمی گیت


اشاروں اشاروں میں دل لینے والے

بتا یہ ہنر تُو نے سیکھا کہاں سے

نگاہوں نگاہوں میں جادو چلانا

میری جان سیکھا ہے تم نے جہاں سے


میرے دل کو تم بھا گئے، میری کیا تھی اس میں خطا

مجھے جس نے تڑپا دیا، یہی تھی وہ ظالم ادا

دل میں تجھے بٹھا کے کر لوں گی میں بند آنکھیں

 فلمی گیت


دل میں تجھے بٹھا کے، کر لوں گی میں بند آنکھیں

پوجا کروں گی تیری، ہو کے رہوں گی تیری

دل میں تجھے بٹھا کے ۔۔۔۔

پوجا کروں گی تیری ۔۔۔۔۔


میں ہی میں دیکھوں تجھے پیا اور نہ دیکھے کوئی

کبھی راجہ تو کبھی راج دلارے بچے

کبھی راجہ تو کبھی راج دُلارے بچے 

ماؤں کے واسطے پُر نُور ستارے بچے

دوڑتے بھُوک کی گلیوں میں ہیں ننگے پاؤں

ہائے بے رحمئ حالات کے مارے بچے 

میرے بچوں کے مقدر میں غلامی کیوں ہے

حکمرانی ہی کریں کیوں یہ تمہارے بچے 

اسیر دام مروت بنا کے لوٹ لیا

 اسیرِ دامِ مروّت بنا کے لُوٹ لیا

'خود اپنا دردِ محبت دکھا کےلوٹ لیا'

ہُنر سِکھا کے کبھی کھیلنے کا لہروں سے

اسی نے مجھ کو بھنور بیچ لا کے لوٹ لیا

سُنی نہ تُو نے خِرد کی کبھی دلِ ناداں

یونہی جنوں نے دیوانہ بنا کے لوٹ لیا

یہ برف زار بدن سے نہ جاں سے نکلے گا

 یہ برفزار بدن سے نہ جاں سے نکلے گا

لہو ہو سرد تو شعلہ کہاں سے نکلے گا

ہزار گھیرے رہے جبر کا حصارِ سیہ

کہ بابِ‌ راہِ اماں درمیاں سے نکلے گا

جو تلخ حرف پسِ لب ہے عام بھی ہو گا

چڑھا ہے تیر تو آخر کماں سے نکلے گا

میں تو سمجھی تھی سمندر کو پر سکون

 قسمت کی خوبی دیکھیے


میں تو سمجھی تھی سمندر کو پُر سکون

دیکھتے ہی دیکھتے اس میں طوفان آ گئے

میرے صیّاد کو ضد ہے کہ قفس کر دوں خالی

وہ بھی مجبور ہے، اس کے نئے مہمان آ گئے

منزل قریب ہے مجھے لگ رہا تھا یوں

عاشقی کی حکایتیں ہیں اور

 عاشقی کی حکایتیں ہیں اور

عام لیکن روایتیں ہیں اور

ہے تو اوروں پر بھی کرم اُن کا

ہم پہ لیکن عنایتیں ہیں اور

اک نظر دیکھ بھی لیا تو کیا

غمِ دل کی رعایتیں ہیں اور

میرا بیٹا کسی نے دیکھا ہے کیا

 میرا بیٹا کسی نے دیکھا ہے کیا؟


صحن میں جب ہوا کے جھونکے سے

کوئی ہلکی سی چاپ ہوتی ہے

اپنے بوڑھے نحیف لہجے میں 

ایک ماں پوچھ کر یہ روتی ہے

کوئی بتلاؤ نا! کہاں ہے وہ؟

صدا کے کھوکھلے بت پر وہ اپنی انگلیاں گھستے

 کھوکھلے برتن کے ہونٹ


صدا کے کھوکھلے بت پر

وہ اپنی انگلیاں گھستے رہیں گے

اندھیرے نرخرے سے

بس ہوا کی رفت و آمد کا نشاں

معلوم ہوتا ہے

یہ لہو کس کا ہے یہ لہو مقدس ہے

 یہ لہو کس کا ہے

یہ لہو مقدس ہے

یہ لہو امانت ہے

اس زمیں کی سانسوں کا

آنے والی نسلوں کا

یہ لہو حوالہ ہے

اس کے میرے معاہدے وحشت

 اس کے میرے معاہدے وحشت 

سب محبت کے سلسلے وحشت 

ہنس کے سینے لگا لیا میں نے 

آئی جب میرے سامنے وحشت 

حاکمِ شہر کی یہ خواہش ہے 

شہر میں ناچتی پھرے وحشت

تو اپنی محبت کا اثر دیکھ لیا کر

 تُو اپنی محبت کا اثر دیکھ لیا کر

جاتے ہوئے بس ایک نظر دیکھ لیا کر

انسان پہ لازم ہے کہ وہ خود کو سنوارے

دُھندلا ہی سہی آئینہ، پر دیکھ لیا کر

حسرت بھری نظریں تِرے چہرے پہ جمی ہیں

بھولے سے کبھی تُو بھی اِدھر دیکھ لیا کر

کچھ تو اے یار علاج غم تنہائی ہو

 کچھ تو اے یار! علاجِ غمِ تنہائی ہو

بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رُسوائی ہو

ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں‌

ڈوبنے کے لیے لازم نہیں گہرائی ہو

جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے

اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو

سرد رشتوں کی برف پگھلی ہے

 سرد رِشتوں کی برف پِگھلی ہے

دھوپ مُدت کے بعد نکلی ہے

نیند آنکھوں سے یہ چُرائے گی

گشت پر یاد پھر سے نکلی ہے

ہر نئی لہر میں نیا پانی

وہ جو پچھلی تھی اب وہ اگلی ہے

کچھ تو ہم بھی لکھیں گے جب خیال آئے گا

 کچھ تو ہم بھی لکھیں گے، جب خیال آئے گا

ظلم، جبر، صبر کا جب سوال آئے گا

عقل ہے، شعور ہے، پھر بھی ایسی بے فکری

تب کی تب ہی دیکھیں گے جب زوال آئے گا

یوں تو ہم ملائک ہیں، بشر بھی کبھی ہوں گے

دوسروں کے دکھ پہ جب ملال آئے گا

سچ کے اظہار کو تہمت نہیں ہونے دیں گے

 سچ کے اظہار کو تہمت نہیں ہونے دیں گے

ایسا ہرگز کسی صورت نہیں ہونے دیں گے

رنگ تیرے مِری رنگت سے اترتے جائیں

ہم کبھی دشت کو وحشت نہیں ہونے دیں گے

گُل کھِلے کتنے ذرا دیکھ سرِ دشتِ وفا

تم تو کہتے تھے محبت نہیں ہونے دیں گے

ہوائے شام ذرا سا قیام ہو گا نا

 ہوائے شام! ذرا سا قیام ہو گا نا

چراغِ جاں کو جلاؤں، کلام ہو گا نا

بس ایک بات ہی پوچھی بچھڑنے والے نے

کبھی کہیں پہ ملے تو، سلام ہو گا نا

وہاں بہشت میں حور و کشور ہوں گے مگر

قرارِ جاں کا بھی کچھ انتظام ہو گا نا

میں جاگی ہوئی ہوں کہ سوئی ہوئی ہوں

 میں جاگی ہوئی ہوں کہ سوئی ہوئی ہوں

خیالوں کے صحرا میں کھوئی ہوئی ہوں

لبوں پر ہنسی، رخ پہ شبنم کے قطرے

میں کھل کر ہنسی ہوں کہ روئی ہوئی ہوں

نمو کس طرح ہو مری خواہشوں کی

کہ بنجر زمینوں میں بوئی ہوئی ہوں

زلف چہرے سے ہٹاؤ تو کوئی بات بنے

 زلف چہرے سے ہٹاؤ تو کوئی بات بنے

جام نظروں سے پلاؤ تو کوئی بات بنے

غم ہیں اتنے کہ دو بوندوں سے مِرا کیا ہو گا

سارا مے خانہ پلاؤ تو کوئی بات بنے

یاد مےخانے کے آداب سبھی ہیں مجھ کو

سارے رندو کو بلاؤ تو کوئی بات بنے

اس طرح پیار سے تم نے دیکھا صنم

 فلمی گیت


اس طرح پیار سے، تم نے دیکھا صنم

کیا کہیں کیا ہوا، ہم رہے اب نہ ہم

تمہارا کیا گیا، ہمارا دل گیا

کہ اب دل کو صنم، کہاں ڈھونڈیں گے ہم

اس طرح پیار سے

تم بن کیا ہے جینا کیا ہے جینا تم بن

 فلمی گیت


تم بِن کیا ہے جینا کیا ہے جینا تم بِن 

کیا ہے جینا تم بِن جیا جائے کیسے

کیسے جیا جائے تم بِن

صدیوں سی لمبی ہیں راتیں

صدیوں سے لمبے ہوئے دن 

آ جاؤ لوٹ کر تم یہ دل کہہ رہا ہے 

تو سے نیناں لاگے پیا سانورے

 فلمی گیت


تو سے نیناں لاگے پیا سانورے 

نہیں بس میں اب یہ جیا سانورے 

محبت تو ایک جاوِداں زندگی ہے 

تو سے نیناں لاگے ملی روشنی  

تو سے من جو لاگا ملی زندگی 

محبت تو ایک جاوداں زندگی ہے

سر بسر شاخ دل ہری رہے گی

 سر بسر شاخ دل ہری رہے گی

تا ابد آنکھ میں تَری رہے گی

میں نے قصہ ہی پاک کر ڈالا

عشق ہو گا نہ خود سری رہے گی

عکس بنتے رہیں گے پیش نظر

صورتِ آئینہ گری رہے گی

محبت کو عقیدہ عاشقی کو دین کہتا تھا

 محبت کو عقیدہ، عاشقی کو دِین کہتا تھا

کوئی تھا جو مِری ہر بات پر آمین کہتا تھا

وہ ہر ہر سانس میں جپتا تھا میرے نام کی مالا

کبھی مہتاب کہتا تھا، کبھی ماہین کہتا تھا

کبھی آنے نہیں دیتا تھا میری آنکھ میں آنسو

مِرے اشکوں کو اپنے عشق کی توہین کہتا تھا

دیکھو کتنے بدل گئے ہو دنیا کے جنجالوں میں

 دیکھو کتنے بدل گئے ہو دنیا کے جنجالوں میں

اک بار بھی میرا حال نہ پوچھا تم نے اتنے سالوں میں

تجھ کو چاہا تجھ کو سوچا تیرے ہی سپنے دیکھے

ساری ساری رات کٹی ہے تیرے ہی خیالوں میں

روز بروز بڑھتی جائے تیری ہی الفت دل میں

تیرا دل میں نام لکھا ہے آفت کے پرکالوں میں

Monday 29 March 2021

کسے خبر تھی کہ اس کو بھی ٹوٹ جانا تھا

 کسے خبر تھی کہ اس کو بھی ٹوٹ جانا تھا

ہمارا آپ سے رشتہ بہت پرانا تھا

ہم اپنے شہر سے ہو کر اداس آئے تھے

تمہارے شہر سے ہو کر اداس جانا تھا

صدا لگائی، مگر کوئی بھی نہیں پلٹا

ہر ایک شخص نہ جانے کہاں روانہ تھا

یہ وصال و ہجر کا مسئلہ تو مری سمجھ میں نہ آ سکا

 یہ وصال و ہجر کا مسئلہ تو مِری سمجھ میں نہ آ سکا

کبھی کوئی مجھ کو نہ پا سکا کبھی میں کسی کو نہ پا سکا

کئی بستیوں کو الٹ چکا، کوئی تاب اس کی نہ لا سکا

مگر آندھیوں کا یہ سلسلہ، تِرا نقشِ پا نہ مٹا سکا

مِری داستاں بھی عجیب ہے وہ قدم قدم مِرے ساتھ تھا

جسے رازِ دل نہ بتا سکا، جسے داغِ دل نہ دِکھا سکا

وہ نماز عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے

 وہ نمازِ عشق ہی کیا جو سلام تک نہ پہنچے

کہ قعود سے جو گزرے تو قیام تک نہ پہنچے

وہ حیات کیا کہ جس میں نہ خوشی کے ساتھ غم ہو

وہ سحر بھی کیا سحر ہے کہ جو شام تک نہ پہنچے

تِرے مے کدے کا ساقی یہ چلن بھی کیا چلن ہے

کہ جو ہاتھ تشنہ کاموں کے بھی جام تک نہ پہنچے

ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ محبت لکھنا

💖ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ محبت لکھنا💖

زندگی بھر کسی انساں سے نہ نفرت لکھنا

ان کو چاہا تو عجب شان سے چاہا ہم نے

بس انہیں سوچا ہے تا عمر قیامت لکھنا

کچھ ہنر آ نہ سکا مدح سرائی کا ہمیں

اور آیا، تو روایت سے بغاوت لکھنا

ہجر میں دل یہ مرا بس سوچتا رہ جائے گا

 ہجر میں دل یہ مِرا بس سوچتا رہ جائے گا

گھر میں بس تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا

تیرے میرے درمیاں بس اک خلا سا ہے کوئی

یاد میں جھونکا ہوا کا جھانکتا رہ جائے گا

رات کے سناٹے میں ہوں چار سُو خاموشیاں

چاند بھی تنہائی میری دیکھتا رہ جائے گا

اگرچہ عہد جنوں کی حکایتیں ہیں اور

 اگرچہ عہدِ جنوں کی حکایتیں ہیں اور

زبانِ خلق پہ لیکن روایتیں ہیں اور

توجہات تو ہیں ان کی دوسری پر بھی

ہمارے حال پہ لیکن عنایتیں ہیں اور

یہی نہیں کہ اُٹھائی نگاہ، دیکھ لیا

کسی غریب کے دل کی رعایتیں ہیں اور

بہت مصروف رہتا ہوں

 بہت مصروف رہتا ہوں


بہت مصروف رہتا ہوں

دلوں کے سرد موسم پر

چمکتی دھوپ کا ٹکڑا بچھانے میں

محبت کے کسی ویران ساحل پر

پڑی ہے موج چھوٹی سی

روح کو میری توجہ چاہیے

 روح کو میری توجہ چاہیے

زخم سے گہری توجہ چاہیے

گھر کی حالت دیکھ کر لگتا نہیں

اب اسے کوئی توجہ چاہیے

جم گئی ہے کائی سی دہلیز پر

تیرے قدموں کی توجہ چاہیے

دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم

 دل کو بچا کے لائے تھے سارے جہاں سے ہم

آخر میں چوٹ کھا گئے اک مہرباں سے ہم

بے فکریوں کا راج ہو رسہ کشی کے ساتھ

وہ مدرسہ حیات کا لائیں کہاں سے ہم

اب گرد بھی ہماری نہ پائیں گے قافلے

آگے نکل گئے ہیں بہت کارواں سے ہم

بے رخی کا کچھ نہ کچھ تو سلسلہ ہونا ہی تھا

 بے رخی کا کچھ نہ کچھ تو سلسلہ ہونا ہی تھا

ایک دن تو درمیاں یہ فاصلہ ہونا ہی تھا

خیر یہ اچھا ہوا،۔ ترکِ تعلق کر لیا

تم سے آخر ایک دن یہ فیصلہ ہونا ہی تھا

جب پرندے چھوڑ کر ان بستیوں کو جا چکے

پھر تباہی کا کوئی تو حادثہ ہونا ہی تھا

عشق سچا ہے اگر سوز نہانی مانگے

 عشق سچا ہے اگر سوزِ نہانی مانگے

ہجرِ محبوب میں وہ اشک فشانی مانگے

اک نئی لکھنے کو تاریخ کہانی مانگے

ہر نیا دور الگ اپنی نشانی مانگے

سیلِ غارت جو کسی جا پہ روانی مانگے

زد پہ سب پیری و طفلی و جوانی مانگے

نیا سورج نئی دھرتی پہ دیکھوں

 نیا سورج

نئی دھرتی پہ دیکھوں

کھلی ہو دھوپ تازہ

راستوں پر میسر ہو

نئے موسم کی خوشبو

ملیں دل کو حسیں رنگیں اُڑانیں

کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا

 کوشش ہے گر اس کی کہ پریشان کرے گا

وہ دُشمنِ جاں درد کو آسان کرے گا

ہم اس کو جوابوں سے پشیمان کریں گے

وہ ہم کو سوالوں سے پشیمان کرے گا

پہلو تہی کرتے ہوئے دزدیدہ جو دیکھے

چہرے کے تأثر سے وہ حیران کرے گا

روشن ہوں دل کے داغ تو لب پر فغاں کہاں

 روشن ہوں دل کے داغ تو لب پر فغاں کہاں

اے ہم صفیر! آتشِ گُل میں دُہواں کہاں

ہے نام آشیاں کا،۔ مگر آشیاں کہاں؟

بکھرے ہوئے ہیں خاک میں تنکے کہاں کہاں

اٹھ اٹھ کے پوچھتا ہی رہا راہ کا غبار

کہتا مگر یہ کون؟ لُٹا کارواں کہاں

جیت کر بازی الفت کو بھی ہارا جائے

 جیت کر بازئ الفت کو بھی ہارا جائے

اس طرح حسن کو شیشے میں اتارا جائے

اب تو حسرت ہے کہ برباد کیا ہے جس نے

اس کا دیوانہ مجھے کہہ کے پکارا جائے

آپ کے حسن کی توصیف سے مقصد ہے مِرا

نقشِ فطرت کو ذرا اور ابھارا جائے

جنون شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے

 جنونِ شوق کی راہوں میں جب اپنے قدم نکلے

نگارِ حُسن کی زُلفوں کے سارے پیچ و خم نکلے

یہ بے نُوری مِرے گھر کے اُجالوں کی معاذ اللہ

اگر دیکھیں اندھیرے تو اندھیروں کا بھی دَم نکلے

اُبھارے جائیے جب تک نہ اُبھرے نقش کاغذ پر

تراشے جائیے جب تک نہ پتھر سے صنم نکلے

مسرتوں کا سماں دیر تک نہیں رہتا

 مُسرتوں کا سماں دیر تک نہیں رہتا

دِیا بجھے تو دُھواں دیر تک نہیں رہتا

شباب آتا ہے لےکر پروں کو ساتھ اپنے

زمیں پہ کوئی جواں دیر تک نہیں رہتا

حساب سودِ محبت کا یاد کیا رکھتے

ہمیں تو یاد زیاں دیر تک نہیں رہتا

جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا

 جہاں بھر میں مِرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا

کہ ایسی خاک پر ایسا سمندر ہو نہیں سکتا

رواں رہتا ہے کیسے چین سے اپنے کناروں میں

یہ دریا میری بے تابی کا مظہر ہو نہیں سکتا

کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے

یہ گھر میرے سُلگنے سے منور ہو نہیں سکتا

تم جہاں تھے وہاں کے تھے ہی نہیں

تم جہاں تھے وہاں کے تھے ہی نہیں

یعنی، تم اس جہاں کے تھے ہی نہیں

کیسے اُلجھے ہیں کارِ دنیا میں

ہم جو سُود و زیاں کے تھے ہی نہیں

میں تو اک وحشتِ دِگر میں تھا

مسئلے جسم و جاں کے تھے ہی نہیں

شب ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں

 شبِ ہجر یوں دل کو بہلا رہے ہیں

کہ دن بھر کی بِیتی کو دہرا رہے ہیں

مِرے دل کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں

محبت کی تشریح فرما رہے ہیں

مِرا درد جا ہی نہیں سکتا توبہ

خدائی کے دعوے کیے جا رہے ہیں

خواب سارے دل کے بنجر ہو گئے

 خواب سارے دل کے بنجر ہو گئے

جو تھے اپنے وہ ستمگر ہو گئے

پہلے پہلے موت نے بزدل کیا

بعد ازاں ہم بھی بہادر ہو گئے

خال و خد پہچان میں جب آ گئے

آپ ہم اپنے مصوّر ہو گئے

محبت سات رنگوں سے سجی تتلی کی مانند ہے

 محبت سات رنگوں سے سجی تتلی کی مانند ہے

کہ جب آزاد ہوتی ہے

مہکتی ہے، چہکتی ہے

تو کتنی خوب صورت ہم کو دکھتی ہے

یہ ہر رنگ اوڑھ لیتی ہے

بہاروں کا، خزاں کا بھی

آرزو کے ساحل سے موج بن کے کھیلوں گا

 آرزو کے ساحل سے موج بن کے کھیلوں گا

تیرے دل کے دریا میں جب کبھی میں اتروں گا

جب بہار آئے گی تیرے دل کے آنگن میں

میں تِرے خیالوں میں پھول بن کے مہکوں گا

رات جب جدائی کی روشنی کو ترسے گی

میں تِرے تصور میں چاند بن کے ابھروں گا

نہ ماہرو نہ کسی ماہتاب سے ہوئی تھی

 نہ ماہرو نہ کسی ماہتاب سے ہوئی تھی

ہمیں تو پہلی محبت کتاب سے ہوئی تھی

فریبِ کُل ہے زمیں، اور نمونۂ اضداد

کہ ابتدا ہی گناہ و ثواب سے ہوئی تھی

بس ایک شب کی کہانی نہیں کہ بھُول سکیں

ہر ایک شب ہی مماثل عتاب سے ہوئی تھی

جس طرف جائے مقدر کا ستارہ، جاؤں

جس طرف جائے مقدر کا ستارہ، جاؤں

یہ بھی ممکن ہے تِرے دل میں اتارا جاؤں

میں محبت ہوں کڑی دھوپ میں چھاؤں جیسے

میں کوئی وقت نہیں ہوں کہ گزارا جاؤں

چارہ گر مجھ کو بتاتی ہے تِری خاموشی

کچھ نہیں ہے مِرے اس درد کا چارہ، جاؤں

مجھ کو دہلیزِ شرارت پہ اتارا جائے

 مجھ کو دہلیزِ شرارت پہ اتارا جائے

میرے بچپن سے مجھے کاش گزارا جائے

بعد لڑنے کے اسی پَل میں لگاتے تھے گلے

ان اداؤں پہ مجھے پھر سے اُبھارا جائے

اپنے بچپن کے وہی کھیل پُرانے دیکھوں

جب بھی سُولی سے کوئی لاشہ اُتارا جائے

یہی کارن جدائی کا بنا تھا

 یہی کارن جدائی کا بنا تھا

مجھے وہ وقت سے پہلے ملا تھا

اسی نے زخم بھی اتنے دئیے تھے

جسے میں جس قدر اچھا لگا تھا

اداسی میرے پیچھے پڑ گئی تھی

مِرا دل تھا یا کوئی غم سرا تھا

کہیں بھی جبر کہیں زور ہے نہیں ہے نا

 کہیں بھی جبر، کہیں زور ہے، نہیں ہے نا

کوئی صدا ہے، کوئی شور ہے، نہیں ہے نا

میں ناچتا ہوں تو اپنی رضا سے ناچتا ہوں

مِری کمرمیں کوئی ڈور ہے، نہیں ہے نا

کھلانے والے مجھے تھک گئے، شِکم نہ بھرا

مِری طرح کوئی غم خور ہے، نہیں ہے نا

موسم گل ہی بدل جائے نہ پہلو کی طرح

 موسمِ گُل ہی بدل جائے نہ پہلو کی طرح

رنگ اُڑ جائے نہ تیرا کسی خُوشبو کی طرح

خواہ کتنا ہی سُلجھاؤں، سنواروں اس کو

اُلجھے جاتی ہے طبیعت خمِ گیسُو کی طرح

کر سکی طے نہ مِری آبلہ پائی اب تک

دشتِ ہجراں کی مسافت رمِ آہو کی طرح

اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا

 اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا

وہ وقت کی مثال تھا واپس نہ آ سکا

ہر اک کو اپنا حال سنانے سے فائدہ

میرا جو ہم خیال تھا واپس نہ آ سکا

شاید مِرے فراق میں گھر سے چلا تھا وہ

زخموں سے پائمال تھا واپس نہ آ سکا

Sunday 28 March 2021

اس سمت چلے ہو تو بس اتنا اسے کہنا

 اس سمت چلے ہو تو بس اتنا اُسے کہنا

اب کوئی نہیں حرفِ تمنا اسے کہنا

اُس نے ہی کہا تھا تو یقیں میں نے کیا تھا

اُمید پہ قائم ہے یہ دُنیا, اسے کہنا

دُنیا تو کسی حال میں جینے نہیں دیتی

چاہت نہیں ہوتی کبھی رُسوا اسے کہنا

ہر درد کو اے جان میں سینے میں چھپا لوں

 ہر درد کو اے جان میں سینے میں چھپا لوں

کانٹے تیری راہوں کے میں پلکوں پہ سجا لوں

بچھڑی ہے مِری نیند، بچھڑا ہے تُو جب سے

جی چاہے تجھے روز ہی خوابوں میں بلا لوں

تُو پاس نہ آ، ہاں ذرا دامن تو بڑھا دے

اشکوں کو کہاں تک میں ان آنکھوں میں سنبھالوں

برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر

 برسات کا ادھر ہے دماغ آسمان پر

چھپر ادھر نہیں ہے ہمارے مکان پر

مسجد میں اس کو دیکھ کے حیران رہ گیا

تنقید کر رہا تھا جو کل تک اذان پر

کاغذ کے بال و پر پہ بھروسہ نہ کیجئے

جانا اگر ہے آپ کو اونچی اڑان پر

اندھیرا تم کو اگر ستائے تو لوٹ آنا

 اندھیرا تم کو اگر ستائے تو لوٹ آنا

تمہارے رستے میں رات آئے تو لوٹ آنا

میں جانتی ہوں کہ دھوپ کا یہ سفر نہ ہو گا

جو سایہ دیوار کا جلائے تو لوٹ آنا

مِری وفاؤں کو تم جو ٹھُکرا کے جا رہے ہو

تمہیں اگر کوئی چھوڑ جائے تو لوٹ آنا

جن خوابوں سے نیند اڑ جائے ایسے خواب سجائے کون

 جن خوابوں سے نیند اڑ جائے ایسے خواب سجائے کون

اک پَل جھوٹی تسکیں پا کر ساری رات گنوائے کون

یہ تنہائی، یہ سناٹا، دل کو مگر سمجھائے کون

اتنی بھیانک رات میں آخر ملنے والا آئے کون

سنتے ہیں کہ ان راہوں میں مجنوں اور فرہاد لُٹے

لیکن اب آدھے رستے سے لوٹ کے واپس جائے کون

آ کہ چاہت وصل کی پھر سے بڑی پر زور ہے

 آ کہ چاہت وصل کی پھر سے بڑی پُر زور ہے

آ کہ دل میں حسرتوں نے پھر مچایا شور ہے

آ کہ اب تو دور تک خُوشبو کی چادر بچھ گئی

آ کہ رُخ بادِ صبا کا اپنے گھر کی اور ہے

آ کہ پھر سے چاند پر دلکش جوانی آ گئی

آ کہ پھر سے آج کل انگڑائیوں کا زور ہے

بہت عزیز تھا عالم وہ دلفگاری کا

 بہت عزیز تھا عالم وہ دل فگاری کا

سکوں نے چھین لیا لطف بے قراری کا

ہمیں بھی خو تھی زمانوں سے دل جلانے کی

انہیں بھی شوق پرانا تھا شعلہ باری کا

دلوں میں ان کے رہا اضطراب روز و شب

وہ جن کے سر پہ رہا بوجھ تاج داری کا

کتاب عشق کا شاید یہی قصہ پرانا ہے

 کتابِ عشق کا شاید یہی قصہ پرانا ہے

کہ ہر ممکن کسی ذی ہوش کو مجنوں بنانا ہے

مرے سانپ اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کا زمانہ ہے

حقیقت بھی یہی ہے آج کل، یہ ہی فسانہ ہے

کرو موقوف سارے کام ہر تقریب سے پہلے

اعزّہ اور اقارب کو بھی تو آخر منانا ہے

جس نے پودا کوئی نفرت کا اگایا ہو گا

 جس نے پودا کوئی نفرت کا اُگایا ہو گا

خار چبھنے پہ سمجھ میں اسے آیا ہو گا

سب ہیں ہشیار اسے دیکھ درندوں سے سوا

کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہو گا

تار ہر ایک کتر ڈالے خرد نے صیاد

صید اس دام میں کوئی بھی نہ آیا ہو گا

کوئی تو دل کی نگاہوں سے دیکھتا جائے

 کوئی تو دل کی نگاہوں سے دیکھتا جائے

ہماری روح کے کچھ غم سمیٹتا جائے

تمہارے ملنے کی ہر آس آج ٹوٹ گئی

تمہیں بتاؤ کہ اب کس طرح جیا جائے

ذرا تو سوچیے اس دل کا حال کیا ہو گا

تلاش گُل میں جو پتھر کی چوٹ کھا جائے

چاند تارے یہ رہگزر مانوس

 چاند تارے یہ رہ گزر مانوس

جس سفر سے ہیں ہمسفر مانوس

ان سے کتنا پرانا رشتہ ہے

پتھروں سے ہمارے سر مانوس

موت کا بھی مزا چکھیں گے ہم

زندگی سے ہیں سانس بھر مانوس

میرا جنوں ہی اصل میں صحرا پرست تھا

 میرا جنوں ہی اصل میں صحرا پرست تھا

ورنہ بہار کا بھی یہاں بند و بست تھا

آیا شعورِ زیست تو افشا ہوا یہ راز

تیرے کمالِ فن کی میں پہلی شکست تھا

اوروں نے کر لیے تھے اندھیروں سے فیصلے

اک میں ہی سارے شہر میں سورج بدست تھا

غم کی بے پناہی میں دل نے حوصلہ پایا

 غم کی بے پناہی میں، دل نے حوصلہ پایا

تیرگی کے جنگل میں، چشمۂ ضیا پایا

آفتاب کا پیکر، بن گیا بدن اپنا

روشنی میں سائے کا، سحر ٹوٹتا پایا

کھل گئی جو آنکھ اپنی، وقت کی صدا سن کر

ان گِنت جہانوں کا، در کُھلا ہوا پایا

اچھا ہوں یا برا ہوں مجھے کچھ نہیں پتا

 اچھا ہوں یا برا ہوں؟ مجھے کچھ نہیں پتا

نظروں میں تیرے کیا ہوں مجھے کچھ نہیں پتا

کیا تجھ میں ڈھونڈھتا ہوں مجھے کچھ نہیں پتا

میں تیرا ہو گیا ہوں مجھے کچھ نہیں پتا

آگاہ ہوں میں منزل مقصود سے، مگر

کس سمت جا رہا ہوں مجھے کچھ نہیں پتا

حساب صاف رکھو اپنے گھر اپنے دل کا بھی

 حساب صاف رکھو

اپنے گھر

اپنے دل کا بھی

بے خیالی میں محبتوں کو

محبت کا نام دیتا ہے

بڑھے جو کوئی تمہاری طرف

بچھڑنے والے تو اکثر بچھڑ ہی جاتے ہیں

 بچھڑنے والے تو اکثر

بچھڑ ہی جاتے ہیں

مگر کسی کی جدائی

عذاب لگتی ہے

مگر کسی کے نہ ہونے سے

دل تڑپتا ہے

شکستہ ہو کے بکھر گئی ہوں

 شکستہ ہو کے بکھر گئی ہوں

تِرے بِنا میں تو مر گئی ہوں

کسی نے اپنا بنا کے لُوٹا

اُجڑ گئی ہوں، بکھر گئی ہوں

تیری جُدائی کے صدمے جھیلے

دُکھوں سے کتنی سنور گئی ہوں

پس دیوار و در رکھا ہوا ہے

 پسِ دیوار و در رکھا ہوا ہے

عجب حُسنِ نظر رکھا ہوا ہے

وہ خود رہتا ہے اونچے پربتوں پر

مجھے زیرِ نظر رکھا ہوا ہے

سمندر کی یہ فطرت ہے کہ اس نے

کناروں تک بھنور رکھا ہوا ہے

میں جہاں کھڑا ہوں بس اتنی جگہ میری ہے

 میرے حصے کی جگہ


میں جہاں کھڑا ہوں

بس اتنی جگہ میری ہے

گرم ہواؤں سے

میرا بدن چھلنی ہے

سرد پانیوں سے

میرے پاؤں شل ہیں

کوئی خواب تھا بڑا خوش قبا

دیر سے کھُلنے والا راز


 کوئی خواب تھا بڑا خوش قبا

جسے اوڑھ کر میں پڑا رہا

وہ جو خواب تھا اسی میں کہیں

تھا چھُپا ہوا کوئی جھُوٹ بھی اسی خواب کا

میری چشمِ بند پہ راز یہ بڑی دیر بعد کہیں کھُلا

چوٹ پر چوٹ کھا رہا ہوں میں

چوٹ پر چوٹ کھا رہا ہوں میں

عادتاً مسکرا رہا ہوں میں

اس کے اوپر تو کچھ اثر ہی نہیں

اپنا دل کیوں جلا رہا ہوں میں

آج تنہائی میں جو بیٹھے ہو

کیا تمہیں یاد آ رہا ہوں میں

ہماری چاہت کا لمحہ لمحہ وصال ہوتا کمال ہوتا

 ہماری چاہت کا لمحہ لمحہ وصال ہوتا، کمال ہوتا

تمہارا ہم سے بچھڑنا پل بھر محال ہوتا، کمال ہوتا

مِری نظر میں تِرا سراپا سنور رہا ہے جس طرح سے جاناں

تِری نظر میں بھی گَر مِرا یہ جمال ہوتا، کمال ہوتا

ہوا کی لہروں پہ ڈولتے کچھ خزاں رسیدہ یہ زرد پتے

کسی کی چاہت میں تیرا بھی گر یہ حال ہوتا، کمال ہوتا

تصورات میں ان کو بلا کے دیکھ لیا

 تصورات میں ان کو بلا کے دیکھ لیا

زمانے بھر کی نظر سے چھپا کے دیکھ لیا

فسانۂ غمِ فرقت سنا کے دیکھ لیا

انہوں نے صرف مجھے مسکرا کے دیکھ لیا

کبھی کسی نے سر طور جا کے دیکھ لیا

کبھی کسی نے کسی کو بُلا کے دیکھ لیا

گزرے جو حوادث نہیں آئیں گے گماں میں

 گزرے جو حوادث نہیں آئیں گے گماں میں

ہے خاک بدن، چاک جگر، عشقِ بُتاں میں

استاد کسی اور کو خاطرمیں نہ لائے

اترائے سرِ عام کہ ہوں اہلِ زباں میں

ہر لفظ ہے اشعار کا آواز دلوں کی

ہے نقص کہیں بول مِرے طرزِ بیاں میں

کوئی اشارہ کوئی استعارہ کیوں کر ہو

 کوئی اشارہ کوئی استعارہ کیوں کر ہو

اب آسمانِ سخن پر ستارہ کیوں کر ہو

اب اس کے رنگ میں ہے بیشتر تغافل سا

اب اس سے طور شناسی کا چارہ کیوں کر ہو

وہ سچ سے خوش نہ اگر ہو تو جھوٹ بولیں گے

کہ وہ جو رُوٹھے تو اپنا گزارہ کیوں کر ہو

بلائیں لوٹتی ہیں جب کہیں سے

بلائیں لَوٹتی ہیں جب کہیں سے

تو بسم اللہ ہوتی ہے ہمیں سے

ابھی سے چاک ہوتے جا رہے ہیں

کہیں سے جیب اور دامن کہیں سے

جنوں کا ہے یہی عالم تو کب تک

گریباں کا تعلق آستیں سے

اک تو خود اپنی غمگینی

 اک تو خود اپنی غمگینی

اس پر ان کی نکتہ چینی

اپنی شیرینی بھی تلخی

ان کی تلخی بھی شیرینی

کھُل جائے گا یہ بھی اک دن

کس نے کس کی راحت چھینی

پھولا پھلا شجر تو ثمر پر بھی آئے گا

 پھولا پھلا شجر تو ثمر پر بھی آئے گا

لیکن اسی لحاظ سے پتھر بھی آئے گا

حالات جب بھی شہر کے فلمائے جائیں گے

پردے پہ میرے قتل کا منظر بھی آئے گا

بے چہرہ پھر رہا ہوں مگر اس یقیں کے ساتھ

آئینہ میرے قد کے برابر بھی آئے گا

دل آنکھ کو دیتا رہا خواب اور طرح کے

 دل آنکھ کو دیتا رہا خواب اور طرح کے

رستے میں مگر آ گئے باب اور طرح کے

گُلچیں سے نہ موسم سے، نہ بھنورے سے ہراساں 

اب کلیوں پہ اُتریں گے عذاب اور طرح کے

اب خانہ بدوشی ہمیں ورثے میں ملے گی

بننے لگے ہجرت کے نصاب اور طرح کے

درد سا اٹھ کے نہ رہ جائے کہیں دل کے قریب

 درد سا اٹھ کے نہ رہ جائے کہیں دل کے قریب

میری کشتی نہ کہیں غرق ہو ساحل کے قریب

وجد میں روح ہے اور رقص میں ہے پائے طلب

دیکھیے حال مِرے شوق کا منزل کے قریب

رہ گیا تھا جو کبھی پائے طلب میں چُبھ کر

اب وہی خارِ تمنا ہے رگِ دل کے قریب

آج کچھ کہنے کو تھی شوخئ تدبیر مری

 آج کچھ کہنے کو تھی شوخئ تدبیر مِری 

ہنس پڑی پاس کھڑی تھی کہیں تقدیر مری 

ٹُوٹتے ہی سے ہوئی دل میں کشاکش پیدا 

میری تخریب میں پوشیدہ تھی تعمیر مری

حرّیت ظلمتِ زنداں میں جنم لیتی ہے

انقلابات کی تاریخ ہے زنجیر مری

جواں تھا دل نہ تھا اندیشہ سود و زیاں پہلے

 جواں تھا دل نہ تھا اندیشۂ سود و زیاں پہلے

وہ تھے کیا مہرباں سارا جہاں تھا مہرباں پہلے

کوئی منزل ہو ہمت چاہیے سر ہو ہی جاتی ہے

مگر لُٹتے ہیں رستے میں ہزاروں کارواں پہلے

وہ میرِ کارواں بھی اک نہ اک دن ہو کے رہتے ہیں

جنہوں نے مُدتوں چھانی ہے خاکِ کارواں پہلے

گناہ سے آگے کی بات

 وہ مرد ہوتا

تو اُس کا چہرہ نہ زرد ہوتا 

جب اس کی بیٹی نے 

باپ ہونے کا حرف مانگا 

وجود اپنے کا شرف مانگا 

عجیب حیرت میں پڑ گیا وہ 

نہ دلیلیں نہ ہی ابابیلیں صبر کے گھونٹ ہیں وہی پی لیں

 نہ دلیلیں، نہ ہی ابابیلیں

صبر کے گھونٹ ہیں، وہی پی لیں

کیسی بے خواب ہیں سبھی آنکھیں

جس طرح خشک و بے اماں جھیلیں

مات کھا جائیں ضبط سے اپنے

اور انسانیت پہ بازی لیں

ریگزار زمیں پہ چھوڑ دیا

 ریگ زارِ زمیں پہ چھوڑ دیا

جاں کہیں، دل کہیں پہ چھوڑ دیا

ایک چہرے کی سمت بدلی تھی

ہم نے سب کچھ وہیں پہ چھوڑ دیا

سرد ہونٹوں سے بوسہ سینچا، پھر

عارضِ آتشیں پہ چھوڑ دیا

ایک مدت سے اسے ہم نے جدا رکھا ہے

 ایک مدت سے اُسے ہم نے جدا رکھا ہے

یہ الگ بات ہے، یادوں میں بسا رکھا ہے

ہے خلا چاروں طرف اس کے تو ہم کیوں نہ کہیں

کس نے اس دھرتی کو کاندھوں پہ اٹھا رکھا ہے

جو سدا ساتھ رہے، اور دکھائی بھی نہ دے

نام اس کا تو زمانے نے 'خدا' رکھا ہے

گھونسلہ بھی گرا ہے پیڑ کے ساتھ

ملتان میں گرائے گئے آم کے درختوں کا نوحہ


 گھونسلہ بھی گرا ہے پیڑ کے ساتھ

اک پرندہ پڑا ہے پیڑ کے ساتھ

کچھ مناجات ہیں پرندے کی

پھول کیا کیا گرا ہے پیڑ کے ساتھ

خوشبو کلیوں کی رنگ پھولوں کا

خاک میں مل گیا ہے پیڑ کے ساتھ

اپنے حصے میں کبھی سود و زیاں کرتے ہوئے

 اپنے حصے میں کبھی سُود و زیاں کرتے ہوئے

روز پیتا ہوں غمِ دل کو دَواں کرتے ہوئے

اب وہیں آتی ہے وہ، پھُول پُرانے لے کر

اس نے دیکھا تھا مجھے بَین جہاں کرتے ہوئے

اب یہ لگتا ہے وقت ہی زیاں کیا ہم نے

اس کی قُربت میں کٹے لمحے جمع کرتے ہوئے

Saturday 27 March 2021

پھولوں کی رت ہے ٹھنڈی ہوائیں

 پھولوں کی رُت ہے ٹھنڈی ہوائیں

اب ان کی مرضی آئیں نہ آئیں

ان کی جفا، یا اپنی وفائیں

کیا یاد رکھیں کیا بھول جائیں

پھولوں میں رہ کر پھولوں میں بس کر

کانٹوں سے کیسے دامن بچائیں

کس تکلف کس اہتمام سے ہم

 کس تکلف کس اہتمام سے ہم

دل کو بہلا رہے ہیں شام سے ہم

مۓ چھلکتی ہے، رِند پیاسے ہیں

پھر بھی خوش ہیں اس انتظام سے ہم

جب بھی لیتا ہے کوئی نام تیرا

سر جھُکاتے ہیں احترام سے ہم

نظر سے دور ہوتے جا رہے ہیں

 نظر سے دور ہوتے جا رہے ہیں 

سراپا نور ہوتے جا رہے ہیں 

جنہیں بدنام کرنا چاہتے ہو 

وہی مشہور ہوتے جا رہے ہیں 

ہم آغاز سفر سے پہلے ہی کیوں

تھکن سے چور ہوتے جا رہے ہیں

جانتا ہوں حریف جاں ہیں سب

 جانتا ہوں حریفِ جاں ہیں سب

ہاں، مگر آج وہ کہاں ہیں سب

ایک میں ہی زمیں کی صورت ہوں

اور باقی تو آسماں ہیں سب

کون میری زباں سمجھتا ہے

یوں تو کہنے کو ہمزباں ہیں سب

اپنے دل کا کھنکتا سکہ

 انتساب


اپنے دل کا کھنکتا سِکہ

جو تم ہر صبح سُورج کے ساتھ ہوا میں اُچھالتے ہو

اگر خوف کے رُخ پر گرے تو یہ مت بھُلانا

کہ شجاعت اسی کے دوسرے رُخ پر کندہ ہے

سو یہ ایک داؤ بھی اسی بازی کے نام

یہ سچ ہے مرے فلسفی میرے شاعر

 آڈن کے نام


یہ سچ ہے مِرے فلسفی

میرے شاعر

وہ وقت آ گیا ہے

کہ دنیا کے بوڑھے فریبی معلّم کا جبّہ پکڑ کر

نئے لوگ کہہ دیں

برفباری کی رت

 برفباری کی رُت


یہیں تو کہیں پر

تمہارے لبوں نے

مِرے سرد ہونٹوں سے برفیلے ذرّے چُنے تھے

اسی پیڑ کی چھال پر ہاتھ رکھ کر

ہم اک دن کھڑے تھے

آج ان کے دامن پر اشک میرے ڈھلتے ہیں

 آج ان کے دامن پر اشک میرے ڈھلتے ہیں

غم کے تیز رو دھارے راستے بدلتے ہیں

آپ کے سہارے کی فکر ہو گی اوروں کو

ہم تو ٹھوکریں کھا کر خود بخود سنبھلتے ہیں

وقت بھی ہے میں بھی ہوں فیصلہ یہ کر لیجے

کس کے ساتھ چلنا تھا، کس کے ساتھ چلتے ہیں

مجھے ڈر ہے ہنستے ہنستے کہیں رو نہ دے زمانہ

 مجھے ڈر ہے ہنستے ہنستے کہیں رو نہ دے زمانہ

جو بدل بدل کے عنواں میں کہوں وہی فسانہ

یہ بہار، یہ گھٹائیں، یہ شباب کا زمانہ

مجھے اب تو دیجے ناصح! نہ صلاحِ مخلصانہ

جو ہو جذب جذبِ کامل، جو ہو شوقِ والہانہ

تو ہے بندگی کو لازم نہ جبیں نہ آستانہ

ہمارے دل کو ترا انتظار کب سے ہے

ہمارے دل کو تِرا انتظار کب سے ہے

اب آ بھی جا کہ یہ دل بےقرار کب سے ہے

تمہارے آنے سے گُلشن مہک یہ اٹھتا ہے

تمہاری آس لگائے بہار کب سے ہے

اب ہنس کے طنز کے تیروں سے وار خُوب کرو

تمہیں خبر ہے ہمیں تم سے پیار کب سے ہے

وفا کا یہ صلہ اچھا دیا ہے

 وفا کا یہ صِلہ اچھا دیا ہے

مجھے ہی بے وفا ٹھہرا دیا ہے

عزیزوں دوستوں کے مشوروں نے

ہمارا مسئلہ اُلجھا دیا ہے

بڑھائے جب بھی پاؤں حق کی جانب

مِرے رب نے مجھے رستہ دیا ہے

تاریک رہگزاروں پہ چلنا پڑا مجھے

 تاریک رہگزاروں پہ چلنا پڑا مجھے

بن کے چراغ آپ ہی جلنا بڑا مجھے

جب رات کھا گئی مہ و انجم کی روشنی

سورج کو ساتھ لے کے نکلنا پڑا مجھے

چہرے پہ میرے یوں ہی نہیں آب آ گیا

سونے کی طرح بھٹی میں جلنا بڑا مجھے

بڑے حیران گھر کے آئینے ہیں

 بڑے حیران گھر کے آئینے ہیں

یہ کیوں خاموشیوں کے سلسلے ہیں

مِرے پیروں میں گرچہ آبلے ہیں

مگر باقی ابھی کچھ راستے ہیں

بساط زندگی تو بچھ چکی ہے

بس اب شہ مات کے ہی مرحلے ہیں

آ بھی جاؤ کہ زندگی کم ہے

 آ بھی جاؤ کہ زندگی کم ہے

تُم نہیں ہو تو ہر خوشی کم ہے

وعدہ کر کے یہ کون آیا نہیں

شہر میں آج روشنی کم ہے

آئینہ دیکھ کر خیال آیا

آج کل اُن سے دوستی کم ہے

ارمان اپنے مل گئے سارے غبار میں

 ارمان اپنے مِل گئے سارے غبار میں

’’دو گز زمیں بھی مِل نہ سکی کُوئے یار میں‘‘

آیا نہ وہ بھی پُرسشِ احوال کے لیے

کر دی متاعِ شوق فدا جس کے پیار میں

معلوم ہے نہ آئے گا وعدہ شکن، مگر

ہیں اب بھی اپنے دیدہ و دل انتطار میں

رات بھر خواب میں یوں انجمن آرائی کی

 رات بھر خواب میں یوں انجمن آرائی کی

اس کی تصویر تصور سے دلآرائی کی

جانے کب دے گا درِ دل پہ وہ آ کر دستک

اب تو حد ہو گئی مہجوری و تنہائی کی

جان لے لے نہ کہیں وعدۂ فردا اس کا

مجھ میں طاقت نہیں اب اور شکیبائی کی

میرے قلم کا اگر سر کبھی قلم ہو گا

 میرے قلم کا اگر سر کبھی قلم ہو گا

نیا فسانۂ درد و الم رقم ہو گا

یہ مانتی ہوں مٹا دے گا میرا دور مجھے

نئے زمانے کا اس خاک سے جنم ہو گا

میں اپنے آپ کی پہچان بھول بیٹھی ہوں

اب اس سے اور بڑا کیا کوئی ستم ہو گا

بہ فرط شوق ہر گل میں ترے رخ کی ضیا سمجھے

 بہ فرطِ شوق ہر گُل میں تِرے رُخ کی ضیا سمجھے

اگر چٹکا کوئی غُنچہ تو ہم تیری صدا سمجھے

ہمیں دیکھو کہ کب ہم نے بنائے آشیاں ڈالی

مخالف اپنے جب سارے گُلستاں کی فضا سمجھے

بالآخر آج میرا ضبط اُلفت رنگ لے آیا

مجھے ہی جانثار عشق و جانباز وفا سمجھے

خزاں کے جاتے ہی رت کا پانسہ پلٹ گیا ہے

 واپسی


خزاں کے جاتے ہی رُت کا پانسہ پلٹ گیا ہے

بہار کی خوشبوؤں سے گلشن کا ذرہ ذرہ مہک رہا ہے

زمیں کی رنگت بدل گئی ہے

کبھی تغیّر جو موسموں کا

نرالے گیتوں کے ساتھ آیا

ختم کب ہو گا سفر مرنے کے بعد

 ختم کب ہو گا سفر مرنے کے بعد

اور ہو گا تیز تر مرنے کے بعد

وہ سمجھنا بھی سمجھنا کیا ہوا

لوگ سمجھیں گے مگر مرنے کے بعد

لاکھ دنیا میں ہو کوئی لکھ پتی

سب کا حاصل ہے صفر مرنے کے بعد

تجھے کیا خبر مرے ہمسفر مرا مرحلہ کوئی اور ہے

 تجھے کیا خبر مِرے ہم سفر مِرا مرحلہ کوئی اور ہے 

مجھے منزلوں سے گریز ہے میرا راستہ کوئی اور ہے 

میری چاہتوں کو نہ پوچھئے جو ملا طلب سے سوا ملا 

مِری داستاں ہی عجیب ہے، مِرا مسئلہ کوئی اور ہے

یہ ہوس کے بندے ہیں ناصحا! نہ سمجھ سکے مِرا مُدعا

مجھے پیار ہے کسی اور سے، مِرا دلربا کوئی اور ہے

آج دل سے دعا کرے کوئی

 آج دل سے دعا کرے کوئی

حقِ الفت ادا کرے کوئی

جس طرح دل مِرا تڑپتا ہے

یوں نہ تڑپے خدا کرے کوئی

جان و دل ہم نے کر دئیے قرباں

وہ نہ مانے تو کیا کرے کوئی

حضور آپ کو لوگ کم جانتے ہیں

 حضور آپ کو لوگ کم جانتے ہیں

مگر آپ کیا ہیں؟ یہ ہم جانتے ہیں

محبت کا انجام اللہ جانے💓

نہ تم جانتے ہو نہ ہم جانتے ہیں

یہی جانتے ہیں کہ کچھ بھی نہ جانا

نہ اس سے زیادہ نہ کم جانتے ہیں

ہر وقت یہ احساس دلانے کا نہیں میں

 ہر وقت یہ احساس دلانے کا نہیں میں

تیرا ہوں فقط، سارے زمانے کا نہیں میں

مدت سے مِرے سینے میں اک راز ہے پنہاں

یہ راز مگر سب کو بتانے کا نہیں میں

دریا تو ہوں لیکن مِرے اندر ہے وہ وُسعت

کُوزے میں کسی طور سمانے کا نہیں میں

یہاں سے اب کہیں لے چل خیال یار مجھے

 یہاں سے اب کہیں لے چل خیالِ یار مجھے

چمن میں راس نہ آئے گی یہ بہار مجھے

تِری لطیف نگاہوں کی خاص جنبش نے

بنا دیا تِری فطرت کا رازدار مجھے

مِری حیات کا انجام اور کچھ ہوتا

جو آپ کہتے کبھی اپنا جاں نثار مجھے

در شہی سے در گدائی پہ آ گیا ہوں

 درِ شہی سے درِ گدائی پہ آ گیا ہوں

میں نرم بستر سے چارپائی پہ آ گیا ہوں

بدن کی ساری تمازتیں ماند پڑ رہی ہیں

وہ بے بسی ہے کہ پارسائی پہ آ گیا ہوں

نہیں ہے چہرے کا حال پڑھنے کی خُو کسی میں

سکوت توڑا ہے لب کشائی پہ آ گیا ہوں

ادھڑے ہیں زخم اس طرح کہ سل نہیں رہے

 اُدھڑے ہیں زخم اس طرح کہ سِل نہیں رہے

اور حوصلے ہیں جو ہمیں اب مل نہیں رہے

پھیلی ہوئی ہے چارسُو خوشبو، سو حیف ہے

آنگن میں گُل ہمارے ہی کیوں کِھل نہیں رہے

جُھریاں پڑی تو تُم ہمیں اب دیکھتے بھی نئیں

لب وہ نہیں رہے؟ یا وہ تِل نہیں رہے؟

عشق میں ہر تمنائے قلب حزیں سرخ آنسو بہائے تو میں کیا کروں

 عشق میں ہر تمنائے قلبِ حزیں سرخ آنسو بہائے تو میں کیا کروں

نا امیدی ہمہ وقت امید کے حاشیوں کو مٹائے تو میں کیا کروں

اس کے رخسار صبح درخشاں سہی اس کی زلفوں میں شام غریباں سہی

دھوپ اور چھاؤں کی طرح وہ خود نگر سامنے میرے آئے تو میں کیا کروں

وہ الگ میں الگ وہ کہیں ہیں کہیں واقعی یہ تو شایانِ الفت نہیں

وہ ادا آشنا، حسنِ ناز آفریں، بے نیازی دکھائے تو میں کیا کروں

دل کو قرار ملتا ہے اکثر چبھن کے بعد

 دل کو قرار ملتا ہے اکثر چبھن کے بعد

نیندیں سہانی آتی ہیں دن کی تھکن کے بعد

بے کار سی جوانی ہے جس پر ستم نہ ہو

شیریں ہوا شجر پہ ثمر بھی تپن کے بعد

آنگن تھا جب تلک یہ نہ دل کو لُبھا سکا

یادیں وطن کی آئی ہیں ترکِ وطن کے بعد

دل ملا دل کا مدعا نہ ملا

 دل ملا دل کا مدعا نہ ملا

جی لیے جینے کا مزا نہ ملا

بندۂ زر تو ہر قدم پہ ملے

ایک بھی بندۂ خدا نہ ملا

کوئی شکوہ نہیں مجھے ان سے

دل ہی تو ہے ملا ملا نہ ملا

یہ زلف جو بکھری ہے سنور جائے تو اچھا

 یہ زلف جو بکھری ہے سنور جائے تو اچھا

ہم پہ جو گُزرنی ہے گُزر جائے تو اچھا

آئے نا کہیں حسن کے دامن پہ کوئی آنچ

الزامِ جنوں، عشق کے سر جائے تو اچھا

ڈر ہے کہیں گُلشن کو یہ پامال نا کر دے

آندھی جو چلی ہے وہ گُزر جائے تو اچھا

بیگانہ وار ہم سے یگانہ بدل گیا

 بے گانہ وار ہم سے یگانہ بدل گیا

کیسی چلی ہوا، کہ زمانہ بدل گیا

آنکھیں بھی دیکھتی ہیں زمانہ کے رنگ ڈھنگ

دل بھی سمجھ رہا ہے زمانہ بدل گیا

بدلا نہ تھا زمانہ اگر تم نہ بدلے تھے

جب تم بدل گئے، تو زمانہ بدل گیا

پوچھیں وہ کاش حال دل بیقرار کا

 پوچھیں وہ کاش حال دلِ بے قرار کا

ہم بھی کہیں کہ شُکر ہے پروردگار کا

لازم اگر ہے شکر ہی پروردگار کا

پھر کیا علاج گردشِ لیل و نہار کا

صیاد بھی پہنچ گیا، گُلچی بھی باغ میں

اے ہم صفیر! آ گیا موسم بہار کا

تو مری جان گر نہیں آتی

 تُو مِری جان گر نہیں آتی

زیست ہوتی نظر نہیں آتی

دل رُبائی و دلبری تجکو

گو کہ آتی ہے پر نہیں آتی

حالِ دل مثلِ شمع روشن ہے

گو مجھے بات کر نہیں آتی

اک پرانی شراب جیسا عشق

 اک پرانی شراب جیسا عشق

مجھ سے خانہ خراب جیسا عشق

میر کی ایک غزل سا دل افروز

اک مقدس کتاب جیسا عشق

ہے گُنہ بھی یہی عبادت بھی

عاقبت کے حساب جیسا عشق

جدت فکر و نظر حسن معانی مانگے

جدتِ فکر و نظر حسنِ معانی مانگے

شاعری خون، جگر سوز نہانی مانگے

دن کا شہزادہ ہے جو رات کی رانی مانگے

روز پُر کیف و حسیں شام سہانی مانگے

قصۂ وامق و عذرا سے نہیں اس کو غرض

بُوالہوس روز نئی ایک کہانی مانگے

جا رہے ہیں آپ تو پھر مسکراتے جائیے

 جا رہے ہیں آپ تو پھر مسکراتے جائیے

’’یاد کا سارا سر و ساماں جلاتے جائیے‘‘

خانۂ دل جس میں مہماں تھے وہ ڈھاتے جائیے

نقش ہیں جو لوحِ دل پر وہ مٹاتے جائیے

خونِ دل جتنا جلانا ہے جلاتے جائیے

جشنِ بربادی محبت کا مناتے جائیے

نقاب تجلی اٹھانے لگے

 نقابِ تجلی اٹھانے لگے

مِرے دل کو وہ آزمانے لگے

تصور میں جب سے وہ آنے لگے

شبِ ہجر ہم مسکرانے لگے

خدا جانے ساقی نے کیا کر دیا ہے

جو ہم بے پیئے لڑکھڑانے لگے

یاد تو آئے کئی چہرے ہر اک گام کے بعد

 یاد تو آئے کئی چہرے ہر اک گام کے بعد

کوئی بھی نام کہاں آیا تِرے نام کے بعد

دشت و دریا میں کبھی گلشن و صحرا میں کبھی

میں رہا محو سفر اک تِرے پیغام کے بعد

گامزن راہِ جنوں پر ہیں تو پھر سوچنا کیا

کسی انجام سے پہلے کسی انجام کے بعد

آج پھر وقت کوئی اپنی نشانی مانگے

 آج پھر وقت کوئی اپنی نشانی مانگے

بات بھولی ہوئی زخموں کی زبانی مانگے

جذبۂ شوق کہ وارفتۂ حسن ابہام

اور وہ شوخ کہ لفظوں کے معانی مانگے

عرق آلود ہیں یہ سوچ کے عارض گُل کے

صبحِ خورشید نہ شبنم کی جوانی مانگے

کرونا کے ڈر سے گیا سب کو بھول

نہ ملتی ہے خُوشبو نہ کِھلتا ہے پُھول

کرونا کے ڈر سے گیا سب کو بھول

سڑک سُونی سُونی ہے، بازار بند

نہ چلتی ہے گاڑی نہ اُڑتی ہے دُھول

کئی دن سے نکلا نہ باہر حضور

خیالوں میں آتی ہیں باتیں فضُول

موت ہم کو اگر نہیں آتی

 موت ہم کو اگر نہیں آتی

زندگی راہ پر نہیں آتی

صبحِ محشر کا خوف ہے طاری

نیند یوں رات بھر نہیں آتی

ہر طرف وہ دکھائی دیتا ہے

اس کی صورت نظر نہیں آتی

میں مستی میں چل جو چال آیا کمال آیا

 میں مستی میں چل جو چال آیا کمال آیا

کہ ٹال ہستی کا جال آیا، کمال آیا

مثال میرے عروج کی دیتا تھا زمانہ

عروج کو جب زوال آیا، کمال آیا

تھے سر نِگوں جو ہیں آج آنکھیں دکھا رہے وہ

جو بھوکوں کے ہاتھ مال آیا، کمال آیا

دل کی بازی لگا کے دیکھ لیا

 دل کی بازی لگا کے دیکھ لیا

زندگی کو لُٹا کے دیکھ لیا

بے وفائی کا درد کیسا ہے

ان کو اپنا بنا کے دیکھ لیا

راہ آساں نہیں ہے اُلفت کی

پاؤں ہم نے بڑھا کے دیکھ لیا

اس دل میں ارمان بہت ہیں

 اس دل میں ارمان بہت ہیں

اک ہے گھر مہمان بہت ہیں

میٹھی بولی بول کے دیکھو

لُٹنے کو انسان بہت ہیں

بے کاری، لاچاری، غربت

گھر میں تو سامان بہت ہیں

زخم کھانا ہی جب مقدر ہو

 زخم کھانا ہی جب مقدر ہو

پھر کوئی پھول ہو کہ پتھر ہو

میں ہوں خواب گراں کے نرغے میں

رات گزرے تو معرکہ سر ہو

پھر غنیموں سے بے خبر ہے سپاہ

پھر عقب سے نمودِ لشکر ہو

سخن کا اس سے یارا بھی نہیں ہے

 سخن کا اس سے یارا بھی نہیں ہے

سخن کے بِن گزارا بھی نہیں ہے

بیاں شعروں میں ہم کرتے ہیں جتنا

وہ اس درجہ تو پیارا بھی نہیں ہے

بہت شکوے ہیں اس کو زندگی سے

مگر مرنا گوارا بھی نہیں ہے

میں کہہ نہ سکا اس سے جو اک بات چیخ کر

 میں کہہ نہ سکا اس سے جو اک بات چیخ کر

سب کو سُنا رہا ہے وہ، دن رات چیخ کر

سیلاب اس کی آنکھوں میں آیا تو ہے مگر

خاموش جب ہُوئے، مِرے جذبات چیخ کر

کیا کیا چُبھا گیا تھا کمالِ رفُوگری

کیا کیا نہ کہہ گئے مِرے حالات چیخ کر

پائے طلب کی منزل اب تک وہی گلی ہے

 پائے طلب کی منزل اب تک وہی گلی ہے

آغاز بھی یہی تھا انجام بھی یہی ہے

جس داستان غم کا عنوان روشنی ہے

ہر لفظ کی سیاہی خود منہ سے بولتی ہے

ہر لغزشِ بشر پر تنقید کرنے والو

تم یہ بھُلا چکے ہو انسان آدمی ہے