میں کہہ نہ سکا اس سے جو اک بات چیخ کر
سب کو سُنا رہا ہے وہ، دن رات چیخ کر
سیلاب اس کی آنکھوں میں آیا تو ہے مگر
خاموش جب ہُوئے، مِرے جذبات چیخ کر
کیا کیا چُبھا گیا تھا کمالِ رفُوگری
کیا کیا نہ کہہ گئے مِرے حالات چیخ کر
جب جب میں آئینوں کے مقابل کھڑا ہُوا
مجھ کو ڈرا گئے کئی شبہات چیخ کر
جب بہرا ہو گیا ہو کسی شہر کا سخی
گونگوں کو مانگنا پڑے خیرات چیخ کر
تم اپنا بادبان ذرا کَس کے باندھ لو
بادل کے بعد آئے گی برسات چیخ کر
پھر اس کے بعد اور بھی طوفان آئے گا
اعلان کر رہی ہیں یہ آفات چیخ کر
اشرف شاد
No comments:
Post a Comment