غم ہمارا گلاب ہو جائے
زندگی لا جواب ہو جائے
یاد نے حرف حرف گھیرا ہے
گر لکھوں تو کتاب ہو جائے
دشمنوں کی طرف بھی جائیں گے
دوستوں سے حساب ہو جائے
امتحاں لے نہ بے قراری کا
میرے خط کا جواب ہو جائے
آپ ناحق خدا سے ڈرتے ہیں
شیخ صاحب! شراب ہو جائے
تیرے کوچہ میں آ کے لگتا ہے
جیسے مفلس نواب ہو جائے
خود پرستی انا ہی کافی ہے
رخ ذرا بے نقاب ہو جائے
میں نے دیکھا کہ تُو ہے پہلو میں
اب مجسم یہ خواب ہو جائے
دنیش ٹھاکر
No comments:
Post a Comment