Wednesday 31 March 2021

آج جلتی ہوئی ہر شمع بجھا دی جائے

 آج جلتی ہوئی ہر شمع بجھا دی جائے

غم کی توقیر ذرا اور بڑھا دی جائے

کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے

جب سنور جائے چمن، آگ لگا دی جائے

عقل کا حکم کہ ساحل سے لگا دو کشتی

دل کا اصرار کہ طوفاں سے لڑا دی جائے

دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی

ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے

تبصرہ بعد میں بھی قتل پہ ہو سکتا ہے

پہلے یہ لاش تو رَستے سے ہٹا دی جائے

مصلحت اب تو اسی میں نظر آتی ہے علی

کہ ہنسی آئے تو اشکوں میں بہا دی جائے


علی احمد جلیلی

No comments:

Post a Comment