آج جلتی ہوئی ہر شمع بجھا دی جائے
غم کی توقیر ذرا اور بڑھا دی جائے
کیا اسی واسطے سینچا تھا لہو سے اپنے
جب سنور جائے چمن، آگ لگا دی جائے
عقل کا حکم کہ ساحل سے لگا دو کشتی
دل کا اصرار کہ طوفاں سے لڑا دی جائے
دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی
ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے
تبصرہ بعد میں بھی قتل پہ ہو سکتا ہے
پہلے یہ لاش تو رَستے سے ہٹا دی جائے
مصلحت اب تو اسی میں نظر آتی ہے علی
کہ ہنسی آئے تو اشکوں میں بہا دی جائے
علی احمد جلیلی
No comments:
Post a Comment