کوئی نہ چاہنے والا تھا حُسنِ رُسوا کا
دیار غم میں رہا دل کو پاس دنیا کا
فریبِ صبحِ بہاراں بھی ہے قبول ہمیں
کوئی نقیب تو آیا پیامِ فردا کا
ہم آج راہِ تمنا میں جی کو ہار آئے
نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا
تِری وفا نے دیا درسِ آگہی ہم کو
تِرے جنوں نے کیا کام چشمِ بِینا کا
اُلجھ کے رہ گئی ہر تان سے نوائے سروش
طلسم ٹُوٹ گیا حُسن نغمہ پیرا کا
شبِ فراق میں تارے گنے تو نیند آئی
یہ حال ہو گیا آخر تمہارے شیدا کا
وحید گرمئ اندیشہ نے غضب ڈھایا
سُلگ رہا ہے ابھی ہاتھ خامہ فرسا کا
وحید قریشی
No comments:
Post a Comment