یہ برفزار بدن سے نہ جاں سے نکلے گا
لہو ہو سرد تو شعلہ کہاں سے نکلے گا
ہزار گھیرے رہے جبر کا حصارِ سیہ
کہ بابِ راہِ اماں درمیاں سے نکلے گا
جو تلخ حرف پسِ لب ہے عام بھی ہو گا
چڑھا ہے تیر تو آخر کماں سے نکلے گا
جو پیڑ پھل نہیں دیتے، وہ کاٹتے جاؤ
خزاں کا زہر یوں ہی گلستاں سے نکلے گا
ذرا چلے تو سہی پانیوں پہ تیز ہوا
کھڑا سفینہ کھُلے بادباں سے نکلے گا
کوئی تو کام لو غم سے، رگیں ہی چمکاؤ
جلیں گی شمعیں، اندھیرا مکاں سے نکلے گا
کھُلے ہیں راستوں کے بھید تو سمجھ شاہیں
یہ کارواں سفرِ رائیگاں سے نکلے گا
جاوید شاہین
No comments:
Post a Comment