گھر سے میں جب بھی اکیلا نکل
مجھ سے پہلے مِرا سایہ نکلا
پھاڑ کر دامنِ صحرا نکلا
میرے اندر سے جو دریا نکلا
اک تبسم جو ملا تھا مجھ کو
وہ بھی اک زخمِ تمنا نکلا
جس پہ کل سنگِ ملامت برسے
آج وہ دار پہ عیسیٰ نکلا
آئینہ دیکھا جو عُریاں ہو کر
جسم ہی جسم کا پردا نکلا
جس نے یہ بھیڑ لگا رکھی تھی
خود وہ اس بھیڑ میں تنہا نکلا
آج اک خط کو جو کھولا قیصر
اس میں سُورج کا سراپا نکلا
قیصر صدیقی
No comments:
Post a Comment