Wednesday, 31 March 2021

نہ مستقل و جاوداں جمال ہے کمال ہے

 نہ مُستقل و جاوِداں جمال ہے، کمال ہے

کہ خوبصورتی کو بھی زوال ہے، کمال ہے

بحث مباحثے سے کچھ پرے جوابِ وصل پر

چلو مِرا حبیب ہم خیال ہے، کمال ہے

عجیب بے قرار زندگی کے شب و روز ہیں

تھکا سا دن ہے رات بھی نِڈھال ہے، کمال ہے

تِرے قریب آ کے بھی وہ دُوریاں نہ مِٹ سکیں

نہ قُرب ہے، نہ چَین ہے، وِصال ہے، کمال ہے

جو آئینہ دِکھا رہا ہے نقص، اس کو توڑ دو

یہاں تو سچ کا سامنا وبال ہے، کمال ہے

تِرے بغیر مر گئے مگر ہماری سانس کا

وہ سلسلہ رُکا نہیں، بحال ہے، کمال ہے

تُو مجھ کو چاہتا ہے کیوں بتا مِرے اے ہمنوا

بڑا ہی معتبر سا اک سوال ہے، کمال ہے


مشال مراد

No comments:

Post a Comment