Wednesday 31 March 2021

جو میکدے میں بہکتے ہیں لڑکھڑاتے ہیں

 جو میکدے میں بہکتے ہیں لڑکھڑاتے ہیں

مِرا خیال ہے وہ تشنگی چھُپاتے ہیں

ذرا سا وقت کے سورج نے رُخ جو بدلا ہے

مِرے وجود پہ کچھ سائے مسکراتے ہیں

دلوں کی سمت پہ لفظوں کے سنگ مت پھینکو

ذرا سی ٹھیس سے آئینے ٹُوٹ جاتے ہیں

طلسم ذات کی پھیلی ہے تیرگی اتنی

کہ وُسعتوں کے اُجالے سمٹتے جاتے ہیں

ستم ظریفی حالات کا کرشمہ ہے

بھٹکنے والے مجھے راستے بتاتے ہیں

جنہیں حیات شعورِ حیات حاصل ہے

فریب دیتے نہیں ہیں فریب کھاتے ہیں


حیات وارثی

No comments:

Post a Comment