Wednesday, 31 March 2021

خرد میں مبتلا ہے سالک دیوانہ برسوں سے

 خِرد میں مبتلا ہے سالک دیوانہ برسوں سے

نہیں آیا وہ میخانے میں بےباکانہ برسوں سے

میسر جس سے آ جاتی تھی ساقی کی قدم بوسی

مقدر میں نہیں وہ لغزشِ مستانہ برسوں سے

بیاد چشم یار اک نعرۂ مستانہ اے ساقی 

کہ ہاؤ ہو سے خالی ہے تِرا میخانہ برسوں سے 

تجھے کچھ عشق و الفت کے سوا بھی یاد ہے اے دل 

سنائے جا رہا ہے ایک ہی افسانہ برسوں سے 

کسی کو تو مشرّف کر دے اے ذوقِ جبیں سائی

تقاضا کر رہے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے

نئی شمعیں جلاؤ عاشقی کی انجمن والو

کہ سُونا ہے شبستانِ دلِ پروانہ برسوں سے

کوئی جوہر شناس آئے تو جانے قدر سالک کی

پڑا ہے خاک پر یہ گوہرِ یک دانہ برسوں سے


عبدالمجید سالک

No comments:

Post a Comment