ہجر میں دل یہ مِرا بس سوچتا رہ جائے گا
گھر میں بس تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
تیرے میرے درمیاں بس اک خلا سا ہے کوئی
یاد میں جھونکا ہوا کا جھانکتا رہ جائے گا
رات کے سناٹے میں ہوں چار سُو خاموشیاں
چاند بھی تنہائی میری دیکھتا رہ جائے گا
اک سفر ایسا بھی میرے پاؤں سے باندھا گیا
راستے کٹ جائیں گے اور فاصلہ رہ جائے گا
وہ جو ہر اک بات پر مجھ سے بگڑتا ہے بہت
میں نہیں ہوں گی تو میرا پوچھتا رہ جائے گا
جب پڑھے گا وہ کبھی فرصت سے میری شاعری
عکس اپنا دیکھ کر وہ دیکھتا رہ جائے گا
پھر نئے اک سال کی ہے ابتدا عظمٰی، مگر
سال جو گزرا تجھے وہ ڈھونڈتا رہ جائے گا
عظمٰی شاہ
No comments:
Post a Comment