دائرہ میں گماں کے رہتا ہے
تیر جب تک کماں میں رہتا ہے
کون تجھ سے عزیز تر ہو گا
تو مِرے جسم و جاں میں رہتا ہے
ان سے شیریں بیانیوں کی امید
زہر جن کی زباں میں رہتا ہے
فائدہ تھا درندگی میں اسے
ہو کے انساں زیاں میں رہتا ہے
اس کو احساس سختئ موسم
اب ہے، ٹوٹے مکاں میں رہتا ہے
دل ہو کس طرح مطمئن ہر دم
حالت ناگہاں میں رہتا ہے
گرنے والی ہے اس شجر پہ برق
جس پہ تُو آشیاں میں رہتا ہے
دے کے آزار دوسروں کو خوش
ہو نہ خود اس جہاں میں رہتا ہے
اس سے قطعاً ہے مشورہ بےکار
جو یقین و گماں میں رہتا ہے
لطف روداد زندگی میں مِری
ہے جو اک داستاں میں رہتا ہے
ہے رضیہ جو بندۂ مومن
مستقل امتحاں میں رہتا ہے
رضیہ کاظمی
No comments:
Post a Comment