Wednesday, 31 March 2021

ان سے ملا تو پھر میں کسی کا نہیں رہا

 ان سے ملا تو پھر میں کسی کا نہیں رہا

اور جب بچھڑ گیا تو خود اپنا نہیں رہا

دیوار ٹوٹنے کا عجب سلسلہ چلا

سایوں کے سر پہ اب کوئی سایہ نہیں رہا

ہر اک مکاں سے نام کی تختی اُتر گئی

دل کی فصیل پہ کوئی پہرہ نہیں رہا

رہبر بدل گئے، کبھی رہزن بدل گئے

اور ہم سفر بھی کوئی پُرانا نہیں رہا

اب اس کے حُسن میں وہ کرشمے نہیں رہے

تالی تو بج رہی ہے، تماشہ نہیں رہا

شاید پڑوس میں کہیں بجلی گِری ہے آج

دیکھو ہمارے گھر میں اندھیرا نہیں رہا

دیمک لگی ہوئی ہے صلیبوں پہ شاد اب

رسمِ جنوں نباہنے والا نہیں رہا


اشرف شاد

No comments:

Post a Comment